نئے پاکستان کا بٹن

نئے پاکستان کا بٹن
نئے پاکستان کا بٹن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بٹن دبا کر نیا پاکستان نہیں بن سکتا۔ اسے ناکامی کا اعتراف کہا جائے کہ تین سال کی سرتوڑ کوشش کے باوجود(خیبر پختونخوا میں آٹھ سال) دور دور تک اس نئے پاکستان کے کوئی آثار نظر نہیں آتے،جس کے عمران خان خواب دکھایا کرتے تھے۔اگر ایک کرکٹ کا کھلاڑی اپنی موٹی ویشنل تقریروں کے بل بوتے پر مقتدر حلقوں اور اپنے سپورٹروں کو یقین دلا دے کہ وہ نیا پاکستان بنا سکتا ہے تو بھی حکومت دلائے جانے کے بعد بھی اسے کارکردگی دکھانا ہوتی ہے  اور یہ تبھی ممکن ہے اگر اس میں صلاحیت ہو اور وہ ایسی ٹیم بنا سکے جو یہ کام کر سکے۔تین چوتھائی کابینہ اگر جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری والی ہو تو نیا پاکستان کیسے بن سکتا ہے۔ ظاہر ہے نیا پاکستان قابلیت سے بننا تھا، کسی بٹن کے دبانے سے نہیں۔ عمران خان جب کہا کرتے تھے کہ وہ 90 دن میں کرپشن ختم کر دیں گے تو اس وقت بھی ان کے سپورٹروں کو سوچنا چاہئے تھا کہ کیاخیبر پختونخوا میں پانچ سالہ حکومت میں کرپشن ختم ہو گئی ہے، بلکہ وہاں تو احتساب کا ادارہ ہی بند کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح جب وہ بتاتے تھے کہ پاکستان میں روزانہ دس ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے تو اس حساب سے ایک ہزار دن گذرنے کے بعد حکومت کے پاس کرپشن سے بچائے ہوئے دس ہزار ارب (ایک ہزار کھرب) اضافی رقم ہوتی اور وہ آئی ایم ایف کے منت ترلے نہ کر رہی ہوتی۔

ان کی پارٹی کے راہنما دعوی کرتے تھے کہ حکومت ملنے کے اگلے دن ہی عمران خان پاکستان کی 200 ارب ڈالر کی لوٹی ہوئی رقم بیرون ملک سے واپس لے آئیں گے، جس میں سے 100 ارب ڈالر وہ قرض خوا ملکوں کے منہ پر ماریں گے اور 100 ارب ڈالر سے پاکستان میں ترقی اور خوش حالی کے نئے دور کا آغاز کریں گے تو ان کے سپورٹرز خوشی سے جھوم جھوم جاتے۔ نہ تو پچاس لاکھ گھر بنے، نہ ہی ایک کروڑ نوکریوں کا کوئی انتظام ہوا۔ عمران خان حکومت اپنے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے اور سب کو نظر آرہا ہے کہ نیا پاکستان ایک سراب تھا،جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ اب اس پر پردہ ڈالنے کے دو ہی طریقے رہ گئے ہیں، پہلا یہ کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ بٹن دبانے سے نیا پاکستان نہیں بن سکتا اور دوسرا یہ کہ پاور پوائنٹ پریذنٹیشنز کے ذریعے فرضی اعدادو شمار پیش کئے جائیں کہ اقتصادی ترقی کی شرح چار فیصد ہے اور اگلے سال چھ فیصد ہوجائے گی اور یہ کہ لوگوں کی آمدنی میں 37 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ بھوک، غربت اور بے روزگاری سے خود کشی کرتے عوام کی خبروں کو میڈیا کی ہیڈ لائین بنانے نہیں دیا جاتا۔ ویسے بھی میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے لئے آرڈی ننس یا قوانین لانے کا منصوبہ ہے۔ یہ قوانین اٹلی کے فاشسٹ حکمران مسولینی کے دور کی یاد دلائیں گے۔


 ذوالفقار علی بھٹو کے روٹی کپڑا مکان کے نعرہ کی وجہ سے غریب عوام نے ان سے توقعات لگائی تھیں، لیکن اقتدار ملنے کے بعد وہ روائتی وڈیرہ سیاست دان ثابت ہوئے جن کی تمام توجہ اس وقت کی اپوزیشن کو کچلنا تھی۔ عمران خان کے حامیوں نے بھی تبدیلی کا خواب دیکھتے ہوئے انہیں ووٹ دئیے تھے، جس میں نیا پاکستان بننا تھا، لیکن وہ بھی اپنے اختیارات اپوزیشن کو کچلنے اور انتقامی کاروائیوں پر استعمال کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی نہیں بلکہ اسے دیوار میں چننے کی ہے۔ حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈروں کے رشتہ داروں کو بھی نہیں بخشا جا رہا۔ مسلم لیگ (ن) کے راہنما احسن اقبال کی ہمشیرہ IPO کے لئے سربراہ کی میرٹ لسٹ پر پہلے نمبر پر تھیں، لیکن وزیراعظم نے ان کا نام یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ وہ اپنے دشمن کی بہن کو کیوں کسی عہدہ پر لگائیں، حالانکہ یہ خاتون افسر کیرئیر بیوروکریٹ ہیں اور ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔یہ تو دیگ کا ایک چھوٹا سا دانہ ہے ورنہ پچھلے تین سال کے 1125 دِنوں کا ایک ایک دن سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیوں سے مزین ہے۔میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کے خلاف بس چلے تو انہیں تا حیات جیل کی قصوری چکی میں رکھ دیں، رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات کا جعلی مقدمہ ہو خواجہ آصف کو ہر قیمت پر جیل میں رکھنے کی خواہش جسے پورا کرنے کے FIA کے سربراہ تک کو ہٹایا گیا۔ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کا تو قصور یہی ہے کہ وہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کو تو ذوالفقار علی بھٹو جیسے منتقم مزاج نے بھی نشانہ نہیں بنایا تھا،بلکہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر پاکستان کا متفقہ آئین منظور کیا تھا اور ان کے زمانہ میں بہت سی قانون سازی حکومت اور اپوزیشن متفقہ طور پر کیا کرتی تھیں۔

عمران خان وزیراعظم منتخب ہوئے تو اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد تقریر میں جب انہوں نے یہ کہا کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے تو مجھے فکر دامن گیر ہوئی کہ سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیوں کا سلسلہ نہ شروع ہو جائے، بدقسمتی سے میرا خدشہ درست ثابت ہوا۔ ریاستی اداروں کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے ہمارے حکمران نہ جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب وہ حکومت میں نہیں ہوں گے تو یہی ادارے ان کے خلاف بھی استعمال ہوں گے۔ اسی تقریر میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں تبدیلی لانے کے لئے پہلے مائنڈ سیٹ بدلنا ہو گا۔ اس سے مراد غالباً لوگوں کے اذہان اور زبانوں کی تالہ بندی ہے۔ ان دِنوں افغانستان میں "inclusive govt" تشکیل دینے کا بہت غلغلہ ہے۔ کیا پاکستان میں بھی سب کو ساتھ لے کر چلنے کا سوچا جا رہا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ بھی اس وقت بنا تھا جب صدر ابراہام لنکن نے سول وار جیتنے کے بعد ایمنسٹی کا اعلان کیا تھا۔ فتح مکہ سے لے کر طالبان کی حالیہ کامیابی تک ہر جگہ کامیابی اسی وقت ملی جب سب کے لئے ایمنسٹی کا اعلان ہوا۔ اگر نیا پاکستان بنانا ہے تو سب سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کو خود اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہو گا اور تمام سیاسی سٹیک ہولڈروں کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا ورنہ وہ آئندہ بھی یہی کہتے رہیں گے کہ بٹن دبانے سے نیا پاکستان نہیں بن سکتا۔ 

مزید :

رائے -کالم -