مبہم پالیسی
تقریباً ایک عشرے سے اوپر کی بات ہے کہ وطن عزیز میں دہشت گردی کے عفریت نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے اپنے ہی اکابرین کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ایسا ہوا۔ اس میں کیا شک ہے کہ بڑی طاقتوں کے اژدھام میں خود کو ملوث کرنا ہماری قومی خارجہ پالیسی کا ایک نہایت ہی تاریک موڑ تھا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ چند جنگجو گروہوں کی بھرپور پرورش ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے کی اور ایسا کرتے ہوئے ہم نے یہ بھی نہ سوچا کہ جب یہ پودا ایک تناور درخت بنے گا تو یہ ہماری قومی یکجہتی کے لئے ایک بڑا خطرہ بنے گا۔ ملک میں موجود مذہبی قوتوں نے جنون کے اس کھیل میں غیر ملکی آقاﺅں کے اشاروں پر جہاد کے نام پر ملکی سلامتی کو ان کے پاس گروی رکھ دیا۔70ءکے عشرے میں افغانستان جنگ میں سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھنے والے یہ گروہ اب اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ وہ ریاست کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اسے خطرے سے دوچارکئے ہوئے ہیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ہماری انتظامی مشینری نے ابتدا میں تو ان کی خوب حوصلہ افزائی کی، بعد ازاں ان کی دہشت گردی کی کارروائیوں پر مجرمانہ چپ سادھ لی۔ شروع میں ان لوگوں کی کارروائیاں صرف قبائلی علاقوں تک محدود تھیں،پھر ریاست کی خاموشی نے ان کو اپنا دائرہ کار شہری علاقوں تک بڑھانے کا حوصلہ دیا حتیٰ کہ ان مٹھی بھر بے رحم لوگوں نے اس قدر دہشت پھیلائی کہ پوری قوم بے حال ہوچکی ہے۔ ان سفاک لوگوں نے کئی مرتبہ مذاکرات کے روپ میں انتظامیہ کو دھوکہ دیا، لیکن ان کو ہمیشہ پنپنے کا موقعہ دیا گیا۔ جب بھی ریاستی اداروں نے ان کی بیخ کنی کی سنجیدہ کوشش کی تو انہوں نے کمال ہوشیاری اور چالاکی سے مذاکرات کے جھانسے میں ایسی کوشش کو سبوتاز کردیا۔ جب بھی افواج پاکستان ان کے قلع قمع کے لئے میدان میں اتریں، انہوں نے انتظامیہ کو مذاکرات میں الجھا دیا۔
آگ و خون کے اس کھیل میں تقریباً ساٹھ ہزار انسانی جانوں کا ندرانہ دے کر بھی ہماری حمیت اور اجتماعی غیرت نہیں جاگی اورایسی پالیسیاں مرتب کی گئیں جن کا مقصد وقت گزاری کے سوا کچھ نہیں تھا۔ آج یہ عالم ہے کہ دہشت گردی کی یہ آگ ہمارے دروازوں تک پہنچ چکی ہے اور یاد رکھئے جب تک اس آگ کو ٹھنڈا نہ کیاگیا تو ہم اس میں بھسم بھی ہوسکتے ہیں۔ اب ہمارے لئے یہ بات تجزیہ طلب ہے کہ اتنی بربادی اور انسانی جانوں کے اتلاف کے بعد بھی ہم خواب خرگوش سے جاگ جائیں گے؟ ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ ماضی قریب کے بہیمانہ واقعات کے پس منظر نے چند دنوں کے لئے قوم کی آنکھیں ضرورکھولی تھیں اور پوری قوم نے محسوس کیا کہ مذاکرات کی آڑ میں ہم سے وقت حاصل کیا جارہا ہے اور جب اے ایف سی کے بائیس جوانوں کو ظالمانہ انداز سے شہید کرکے ان کی نعشوں کی بے حرمتی کی گئی تو ہماری فوج نے اسے خطرے کی گھنٹی سمجھ کر بھرپور کارروائیاں کیں۔ یہ کارروائیاں اس قدر مو¿ثر تھیں کہ دشمن فوری طور پر غیر مشروط مذاکرات پر آمادہ ہوگیا جبکہ اس سے پہلے حیلے بہانوں سے اس سے اجتناب پذیر تھا۔
افسوس کہ ہمارے پالیسی سازوں کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آسکی کہ اس یک طرفہ جنگ بندی کا مقصد ہمارے متحارب فریق کا وقت کے حصول سے زیادہ کچھ نہ تھا تاکہ وہ اپنے بے ترتیب گروہوں کو منظم کرسکے۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ طالبان نے سیاسی اور جنگی چالیں اس قدر مہارت سے چلیں کہ ان کے پھیلائے ہوئے جال میں ہم پھنستے چلے گئے، حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ موسم سرما کے ڈھلتے ہوئے پس منظر میں برف کے پگھلنے کا انتظار ان کی ایک چال تھی تاکہ وہ محفوظ پناہ گاہوں تک اپنی رسائی ممکن بناسکیں اور اپنے بکھرے ہوئے جتھوں کو یکجا کرسکیں۔ قابل ستم حقیقت یہ بھی ہے کہ اندھیروں کے ان نقیبوں نے مذاکرات کے ساتھ ساتھ اپنے خونی حملے بھی جاری رکھے اور پشاور اور ارد گرد کے علاقوں کو خون میں نہلا دیا۔
اس پر مستزادیہ کہ اپنی موجودگی ثابت کرنے کے لئے ملک کے دارلخلافے پر بھی جنگی حکمت عملی کے تحت حملہ کیا اور اسلام آباد کی سیکیورٹی کا حصار توڑ کرضلعی عدالتوں کو خون آشام کیا اور کئی نہتے شہریوں کے ساتھ عدلیہ کے ایک معزز ممبر کو شہید کیا۔ ریاستی توجہ ہٹانے کے لئے یہ عذر گھڑا گیا کہ یہ کارروائی ان کی تنظیم سے ماوراکسی گروپ کی کارروائی تھی اور اس کی ذمہ داری لینے سے گریز کیا۔ اس کے باوجود ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور مذاکرات کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنستے چلے گئے اور ان کو ریاست کے متوازی درجہ دے کر اس مشق میں مشغول ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ فریقین پر واقعی سنجیدگی غالب آجائے اور مادر وطن کو وہ امن نصیب ہوجائے جس کی تلاش میں ہم سرگرداں ہیں اور خدا کرے کہ میرا یہ وہم کہ ہم وقت گزاری کررہے ہیںایک سراب ثابت ہو اور قوم کو وہ امن مل جائے جس کا متلاشی اس کا ہر فرد ہے ،کیونکہ اس کا حصول ہر شہری کا حق ہے اور ان کے جان ومال کی حفاظت ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔ امن و آشتی کے ساتھ زندگی گزارنا ان کا آئینی اور قانونی حق ہے۔
اگرچہ مذاکرات کے بارے میں قوم کی اکثریت کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں، لیکن بقول شخصے امن کو ایک موقعہ ملنے کی حجت پوری ہوہی جائے تو بہتری ہے، لیکن ہماری یہ پالیسی غیر مبہم ہونی چاہیئے کہ دہشت اور بد امنی پھیلانے والی یہ قوتیں پھر بھی باز نہ آئیں تو یکسوئی کے ساتھ ان کی بیخ کنی کے لئے اقدامات کرنے ضروری ہوں گے اور یقیناً قوم حکومت کا ساتھ دے گی۔ اگر اب بھی روائتی تساہل سے کام لیا گیا تو جہاد کے روپ میں سامنے آنے والی یہ قوتیں بیرونی آقاﺅں کی آشیرباد سے جس کھیل کی بساط بچھا چکی ہیں وہ خدا نخواستہ پورا ہوتا نظر آرہا ہے اور اس کھیل کی تکمیل کا تصور ہی بھیانک ہے۔ محسوس یہی ہوتا ہے کے جلد یا بدیر ہمیں ملکی سلامتی کی بقا کے لئے ایسے گروہوں کے ساتھ جنگ میں اترنا پڑے گا۔
اگر امن کو موقعہ دے کر ہم یہ جنگ جیت جائیں تو پوری قوم کی یہ خوش بختی ہوگی، لیکن ماضی کے واقعات اور فریق ثانی کے رویوں سے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ طالبان اپنی کمین گاہوں کی نئے سرے سے ترتیب و تکیل میں مصروف ہیں اور اگر ہم نے وقت کی قدر نہ کی تو دہشت گردی کا اژدھا خدانخواستہ ہمیں نگل سکتا ہے۔ ہمیں وقت کی قدر کرنی چاہئے اور اس مسئلے کے حل کے لئے اپنی ساری صلاحیتوں کومجتمع کرکے اسے حل کرنا ہوگا۔ ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ قوم کو مذاکرات کی ہر سطح پر ہونے والی پیش رفت سے آگاہ رکھا جائے تاکہ حکومت کو عوام کا اعتماد بھی حاصل ہوسکے۔ فی الوقت ایسا نہیں ہوررہا جس سے ایسی بدگمانی پیداہورہی ہے جو قومی زندگی کے لئے زہر قاتل ہوسکتی ہے۔ میری رائے ہے کہ اس ضمن میں ایک نیشنل مذاکرات کا اہتمام ہونا چاہیئے جس میں قوم کے ہر حصے کو شامل کرنا ضروری ہے تاکہ قومی اتفاق رائے پیدا ہوسکے، کیونکہ اس کے سوا مذاکرات کا کوئی نتیجہ قابل قبول نہیں ہوگا اور یہ مشق قوم کے وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ مذاکرات کے ہر مرحلے کے نتائج پر عسکری اداروں کو بھی اعتماد میں لیا جائے، کیونکہ کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد اسی ادارے کے ذریعے ممکن ہوسکتا ہے، وگرنہ نتائج منفی صورت میں نکلیں گے۔ ٭