صحت مند غذا:صحت مند زندگی

ہمیں اپنے آپ کوحفظانِ صحت سے آگاہ رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ہماری پلیٹ میں موجود کھانا صحت کیلئے مفید ہو۔ یہ اس سال کیلئے ورلڈ ہیلتھ ڈے کا خصوصی پیغام ہے جو ہر سال 7 ؍ اپریل کو منایا جاتا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایک اندازے کے مطابق،غیر محفوظ خوراک استعمال کرنے سے دنیا بھر میں سالانہ 20لاکھ افراد کی اموات ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے دنیا بھر میں ممالک کے درمیان خوراک کی درآمدات و برآمدات بڑھ رہی ہیں ویسے ہی غیر محفوظ خوراک کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ خوراک میں نقصان دہ بیکٹیریا، وائرس اور کیمیائی مادے شامل ہوں تو یہ دو سو سے زائد بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے جن میں اسہال سے لے کر کینسر جیسی بیماریاں بھی شامل ہیں۔
غذاہر جاندار کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ یہ صحت، سکون، کشیدگی میں کمی، خوشی، سیکیورٹی، طاقت اور توانائی کیلئے بھی مفید ہے اور جب ہم خوراک کی بات کرتے ہیں تو صحت مند خوراک اور فوڈ سیکیورٹی ہر جاندار پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان باتوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں غذا کی کمی کے شکار لوگوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ فوڈ سیکیورٹی کے ماہرین اور بین الاقوامی خوراک کے ادارے اس صورتحال کا ذمہ دار خوراک کی قیمتوں میں اضافے، معاشی سست روی، غربت، جنگ و علاقائی تنازعات، دہشت گردی، توانائی کے بحران، سیلاب اور سیاسی عدم استحکام کو قرار دیتے ہیں۔
صحت مند خوراک کیمیائی آلودگی، کیڑے مار ادویات، بیماری پھیلانے والے بیکٹیریا اور وائرس سے مکمل طور پر پاک ہوتی ہے۔ فوڈ پروسیسنگ اور پروڈکشن ٹیکنالوجی میں ہونے والی جدت کے باوجود عوام کو صحت مند و صاف خوراک کی فراہمی اب بھی ناممکن ہے اور یہ ایک تشویش کی بات ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں فوڈ مینوفیکچررز غیر معیاری خام مال استعمال کرتے ہیں جس میں آلودہ پانی، غیر معیاری غذائی رنگ اور فلیور، غیر محفوظ چکنائیاں اور کھانے کا تیل موجود ہوتے ہیں۔ خوراک کو محفوظ کرنے والے کیمیکل (پریزرویٹوز)بھی صارفین کی صحت کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔صحت مند خوراک کی فراہمی ممکن بنانے کیلئے قانون بہت کمزور ہیں اور فوڈ ریگولیٹری اتھارٹی کی عدم توجہی کی وجہ سے بھی یہ عناصر حکومتی پکڑ میں نہیں آتے ۔جس کی سبب ایک اوسط درجے کا پاکستانی خاندان اپنی غذا میں خطرناک غذائی کیمیکل، سوپ سٹون، سرف، چاک اور دوسرے بہت سے مہلک مادے استعمال کررہا ہے جبکہ طاقتور کیڑے مار ادویات کے اجزاء بھی اناج، پھل اور سبزیوں میں موجود ہیں۔ تازہ صاف پانی کی کمی کی وجہ سے لوگ ایسا پانی پینے پر مجبور ہیں جس میں فلورائیڈز کی زیادتی، گندگی، نقصان دہ کیڑے مار ادویات اور کیمیائی مواد و فضلہ شامل ہوتا ہے۔ اس طرح کے گندے پانی کا استعمال لوگوں کو ہڈیوں کے امراض اور کینسر میں مبتلا کرسکتا ہے۔
اٹھارہ کروڑ سے زیادہ آبادی کا یہ ملک بیماریوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے کیونکہ یہاں پر صحت عامہ کا سسٹم بہت کمزور ہے اور حفظان صحت، جسمانی صحت اور بیماریوں کے متعلق عام پبلک کو بالکل آگہی نہیں ہے۔کئی بیماریوں کو صرف آگہی اور حفاظتی ٹیکوں کے ذریعے روکا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اسہال، پیچش، پیٹ کے امراض، ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس اے جیسے امراض کو صرف پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے روکا جاسکتا ہے۔ فصلوں کی کٹائی کے انتظام میں تاخیر، خوراک کی پیکیجنگ اور ٹرانسپورٹیشن میں تاخیر،خاص طور پر کم وقت میں خراب ہونے والی اجناس، سبزیوں و پھل میں مائیکرو لیول خوراک کی بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔مائیکرو لیول ہونے کی وجہ سے ابتدائی سطح پر بیماری کی علامات واضح نہیں ہوتیں اور اگر ہوتی بھی ہیں تو چند دنوں میں ختم ہوجاتی ہیں لیکن چند صورتوں میں یہ دیرپا اثر ڈالتی ہیں جیسا کہ جوڑوں میں شدید درد یا سوزش ہونا یا گردوں کا فیل ہوجانا۔شیرخوار اور چھوٹے بچے، بوڑھے، حاملہ خواتین اور جو لوگ کینسر اور ذیابیطس کی ادویات استعمال کررہے ہوں، اُن کا مدافعاتی نظام بہت کمزور ہوتا ہے ۔ ایسے افراد کو آلودہ پانی کے استعمال سے شدید بیمارہونے کے خطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
ملاوٹ کے علاوہ غذائی عدم تحفظ نے اس صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔ اگر تمام لوگوں کو ہمہ وقت ایک فعال اور صحت مند زندگی گزارنے کیلئے محفوظ اور غذائیت سے بھرپور خوراک میسر ہے تو اُس معاشرے میں غذائی تحفظ موجود ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں آبادی کا بڑا حصہ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ہمارے ملک میں یا تو لوگ اتنے غریب ہیں کہ خوراک نہیں خرید سکتے اور اگر خوراک خریدنے کی سکت رکھتے بھی ہیں تو غذائیت سے بھرپور خوراک میسر نہیں ہے۔اس طرح دونوں صورتوں میں عوام کی صحت خطرے میں ہے۔معاشی و معاشرتی ناہمواری کے سبب آبادی کا زیادہ حصہ خوراک کی کمی کا شکار ہے جبکہ کچھ لوگ خوراک کی زیادتی سے صحت کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ صرف غیر صحت مند خوراک کے استعمال سے یہ افراد بھی محکمہ صحت اور قومی معیشت پر بوجھ ہیں جس کی حالت پہلے ہی اتنی بہتر نہیں ہے۔
خوراک زندگی کی بنیادی ضرورت ہے لیکن لوگوں کی اچھی صحت کیلئے خوراک کا صحت مند، تازہ اور خالص ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’عوام کی صحت ایک قومی دولت‘ ہوتی ہے۔اسلئے ہمیں اپنے اور اپنے خاندان کیلئے خالص اور صحت مند غذا کو یقینی بنانا ہوگا اور اس کی ذمہ داری حکومت، فوڈ مینوفیکچررز اور صارفین کومشترکہ طور پر اٹھانی ہوگی۔ صحت مند غذا کی فراہمی کیلئے خوراک، زرعی سائنس، انسانی اور جانوروں کی ادویات اور صحت کی معاشیات کے ماہرین کی کثیر شعبہ جاتی کوششیں اور مقامی کمیونٹی کی تعلیم و تربیت و قت کا تقاضا ہے۔