تحریک انصاف کی اسمبلیوں میں واپسی

تحریک انصاف کی اسمبلیوں میں واپسی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریک انصاف نے آخر کار قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھنے کا فیصلہ کرہی لیا۔اتوار کو بنی گالہ میں تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا اجلاس ہوا جس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کا اعلان کر دیا۔اور یہ بھی کہا کہ اب اس کے ارکان تمام اسمبلیوں میں شرکت کریں گے ،انہوں نے گزشتہ روز ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت بھی کی ،اس طرح ان کا آٹھ ماہ سے جاری بائیکاٹ ختم ہوگیاجواستعفوں سے شروع ہوا تھا جو منظور نہ ہوئے تھے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ فیصلہ جوڈیشل کمیشن کے قیام پر معاہدے کے بعدکیا تاہم ساتھ ہی ساتھ ان کایہ بھی کہنا تھا کہ اب وہ ثابت کریں گے کہ عام انتخابات میں 70 لاکھ کے قریب جعلی ووٹ ڈالے گئے تھے اوران کا ایمان ہے کہ 2015 ء الیکشن کا سال ہوگا۔انہوں نے این اے 246کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینا اپنا جمہوری حق قرار دیا۔ عمران خان کاکہنا تھا کہ اس سلسلے میں وہ کراچی جائیں گے اور شہر کے ہر علاقے کا دورہ کریں گے۔انہوں نے الطاف حسین پر شدیدنکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم نے جمہوری پارٹی بننے کا سنہری موقع گنوا دیا اور اگر ان کے کسی کارکن کو کچھ ہوا تو وہ برطانیہ میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کروائیں گے۔چیئر مین تحریک انصاف کے مطابق مشترکہ اجلاس میں شرکت کر نے کا ایک اہم مقصد یمن تنازع کے حوالے سے اپنا موقف خود پیش کرنا بھی ہے۔ان کا کہنا تھا یمن کا معاملہ پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا پر گہرے اثرات مرتب کررہا ہے، پاکستان اب تک دوسروں کی جنگ میں شریک ہوکر نقصان اٹھا رہا ہے، سعودی عرب سے تمام مسلمانوں کا خاص لگا ؤہے، بحیثیت مسلمان اپنی جان دے کر اس سرزمین کا دفاع کریں گے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کے پیچھے مسلمانوں کو لڑانے کی سازش ہے کیونکہ دونوں جانب مسلمان ہیں، اس لئے اس آگ میں شامل ہونے کے بجائے اسے بجھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ان کی واپسی کی وجہ جوڈیشل کمیشن کے قیام کا معاہدہ ہے، ویسے دیکھا جائے تو جوڈیشل کمیشن کے قیام کا اعلان تو 13اگست 2014ء یعنی عمران خان کے لانگ مارچ شروع ہونے سے ایک رات قبل ہی وزیر اعظم نواز شریف نے کر دیا تھا لیکن اس وقت تو عمران خان استعفے سے کم کوئی بات کرنے اور سننے کو تیار ہی نہیں تھے۔انہوں نے 2013ء کے عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے، جوڈیشل کمیشن کے قیام کے اعلان سے قطع نظر کرکے 14 اگست 2014 ء کو لاہور سے لانگ مارچ کا آغازکر دیا تھا ،طویل مسافت کے بعدان کا قافلہ اسلام آبادپہنچا اور دھرنا نشین ہو گیا۔چار ماہ کے دوران بہت سے مواقع آئے جب وہ اپنا دھرنا سمیٹ کر خود کو فاتح منوا سکتے تھے لیکن انہوں نے اس سے فائدہ اٹھانا مناسب نہ سمجھا اور اپنی ضدپر ڈٹے رہے۔البتہ سانحہ پشاورنے عمران خان کو اپنا دھرنا ختم کر نے پر مجبور کر دیااس سے ان کے اخلاقی قد میں اضافہ ہوا،وہ سیاسی قیادت کے ہم آوازبھی ہو گئے۔اچھی بات تو یہ تھی کہ دھرنا ختم ہو گیا لیکن مذاکرات چلتے رہے، حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹتا جڑتا رہا اور مارچ کے آخری عشرے میں اتفاق رائے ہونے کی نوید آ ہی گئی،وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارکے نزدیک کامیابی کا راز میڈیا سے دوری تھی۔اتفاق رائے کے بعد بھی اختلافات کی پھلجڑیاں چھوڑی جاتی رہیں کہا گیا کہ اتفاق شدہ مسودے کے نکات تبدیل کردیئے گئے ہیں جبکہ اسحاق ڈار نے کہا کہ کوما اور فل سٹاپ ،تک نہیں بدلا گیا۔
3 اپریل کو حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لئے صدارتی آرڈیننس بھی جاری ہو گیااور تحریک انصاف نے اتنے عرصے تک باہر رہنے کے بعد اسمبلی کے اندر بیٹھنے کا ارادہ کرہی لیا، ویسے تو یہ دروازہ آٹھ ماہ پہلے بھی ان کے لئے کھلا تھا لیکن تب اس سے گزرنا انہیں گوارا نہیں تھا۔دلچسپ بات تویہ ہے کہ دوران دھرنا جذباتی ہو کر تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی نے استعفے بھی دے دئیے تھے لیکن سپیکر قومی اسمبلی نے ان کے استعفے قبول نہیں کئے تھے اور معاملہ انفرادی و اجتماعی تصدیق کے درمیان الجھ کر رہ گیا۔اس وقت پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا بھی یہی اصرار تھا کہ ان کے استعفے نہ مانے جائیں۔البتہ مولانا فضل الرحمن استعفے منطور کرنے پر زور دیتے رہے ،تحریک انصاف کے واحد رکن اسمبلی جاوید ہاشمی تھے جن کا استعفیٰ منظور ہو ا کیونکہ انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر اسمبلی میں کھڑے ہو کر استعفیٰ دیا تھا،اس جرات کا مظاہرہ شاہ محمود قریشی نہ کر سکے جوپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تقریر کرنے ایوان میں گئے لیکن اپنی بات ختم ہوتے ہی ساتھیوں سمیت باہر آگئے اور استعفے کا ذکر بھی نہ کیا ۔ اب بھی متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماء فاروق ستار کوتحریک انصاف کا یہ فیصلہ کچھ پسند نہیں آیا انہوں نے توتحریک انصاف کی اسمبلی میں واپسی کو غیر آئینی قرار دے دیا، ان کا کہنا تھاکہ آئین کے آرٹیکل 64کے مطابق اسمبلی سے اگر کوئی رکن 40دن تک غیر حاضر رہے تو وہ مستعفی تصور کیاجاتاہے۔
جو بھی ہو تحریک انصاف جوڈیشل کمیشن کے قیام کے معاہدے سے’ مطمئن ‘ہے، جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا،قصوروار سب کے سامنے ہو گا۔ بہر حال تحریک انصاف کا اسمبلی میں شرکت کا فیصلہ خوش آئند ہے ،انہوں نے بھی بالآخر جمہوریت کی بالادستی مان ہی لی،جس اسمبلی کو وہ ’جعلی‘ مانتے ہیں اسی میں واپس بھی آگئے ہیں۔امید تو یہی ہے کہ اب وہ ایوان میں بیٹھ ہی گئے ہیں تو مثبت اور موثراپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ ہمارے اہل سیاست کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ زخم کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو اس کا علاج صرف اور صرف دستور کے مطابق ہی ممکن ہے،تبدیلی آئین کی حدود میں رہتے ہوئے ہی لائی جاسکتی ہے،ماورائے آئین کوئی بھی اقدام فساد ہی برپا کرے گاجس کے ہم ہرگزمتحمل نہیں ہو سکتے۔

مزید :

اداریہ -