شہرت کو انجوائے کررہی ہوں،معروف ماڈل و اداکارہ رباب ہاشم کی باتیں
حسن عباس زیدی
ٹی وی کی معروف اداکارہ،ماڈل و اینکر رباب ہاشم کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں ۔انہوں نے بطور چائلڈ سٹار اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور بہت جلد اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئیں ۔رباب ہاشم نے اداکاری کے ساتھ ساتھ اپنا تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔آج کل بھی ان کے 3ڈرامے مختلف، نجی چینلز سے آن ائر ہیں جن میں ’’ضد‘‘ بھی شامل ہیں۔ رباب ہاشم نے ڈرامہ سیریل ’’ضد‘‘ کے حوالے سے بتایا کہ اس کی تمام ریکارڈنگ امریکی ریاست ورجینیا میں ہوئی تھی۔ اس کا تجربہ بہت اچھا رہا۔ مایا علی اور احسن دونوں میرے بہت اچھے دوست بھی ہیں اور دونوں کے ساتھ یہ میرا دوسرا ڈرامہ تھا اس لئے کام میں بہت مزہ آیا۔ اس سے پہلے نہ کہو تم میرے نہیں بھی ہم ٹی وی پر چلا تھا۔ صبا اور احسن خان نے ایک اور ڈرامہ ’’میرے درد کی تمہیں کیا خبر‘‘ میں بھی کام کیا تھا یہ ڈرامہ بھی ابھی آن ائر نہیں ہوا۔ رباب ہاشم کا پہلا ڈرامہ پی ٹی وی ہوم کے لئے تھا جس کی ہدایت کارہ مصباح خالد تھیں۔ اس سے پہلے پی ٹی وی پر ہی انور مقصود کا لکھا ہوا ایک ڈرامہ ’’ہم پہ جو گزری ہے‘‘ کیا تھا جس کے ڈائریکٹر شاہد شفاعت تھے جو اداکارہ ثانیہ سعید کے شوہر ہیں۔ اس ڈرامہ میں ثانیہ سعید بھی میرے ساتھ تھیں۔ بہروز سبزواری، رشبہ ناز بھی میرے ساتھ تھے۔ ان دونوں ڈراموں میں میرے کردار مرکزی نہیں تھے۔ مصباح خالد کی ڈرامہ سیریل ’’داغ ندامت‘‘ میں میرا مرکزی کردار تھا۔ یہ بھی پی ٹی وی ہوم پر نشر ہوا تھا۔ شوبز میں آمد کے حوالے سے رباب ہاشم نے بتایا کہ شوبزنس سے میرا 10سال کی عمر سے ہے جب میں ایک نجی چینل پر بچوں کے پروگرام کے میزبانی کرتی تھی۔ اس کے بعد اسی چینل پر جانوروں کے حوالے سے ڈاکومنٹری پروگرام کی دو سال تک میزبانی کی۔ اس کے بعد ایک سپورٹس چینل سے دو سال تک گیم شو کی میزبانی کی۔ جہاں تک میری تعلیم کا تعلق ہے تو میں نیشنل کالج آف پرفارمنگ آرٹس (نایا) کی گریجوایٹ ہوں اور میں نے ایکٹنگ باقاعدہ پڑھی ہوئی ہے۔ میں نایا کے پہلے بیج میں تھی اور سب سے کم عمر گریجوایٹ تھی۔ اس وقت میری عمر 16سال تھی۔ آئی او ایم ایم سے مارکیٹنگ میں بی بی اے آنر کیا ہے اور اب مکمل طور پر اداکاری کے شعبے میں آ گئی ہوں۔ پہلے تعلیم کے ساتھ جزوی اداکاری کر رہی تھی۔ 6، 7ماہ کے دوران مجھے بہت سے اچھے پراجیکٹس ملے ہیں۔ ضد کے علاوہ ایک اور ڈرامہ ’’پیا من بھائے‘‘ بھی آن ائر ہے۔ ایک اور نجی چینل سے ’’تم سے مل کر‘‘ بھی آن ائر ہے۔ یہ تین ڈرامے آن ائر ہیں اور کئی ڈرامے سیٹ پر ہیں جس میں ایک یہ ڈرامہ ہے۔ ایک اور ڈرامہ ’’میرے درد کی تجھے کیا خبر‘‘ حال ہی میں مکمل ہوا ہے جس میں احسن خان میرے ساتھ ہیں۔ ایک اور ڈرامہ کی ریکارڈنگ شروع ہونے والی ہے۔ ایک اور ڈرامہ کی ریکارڈنگ شروع ہونے والی ہے۔ ایک اور ڈرامہ اسلام آباد میں شروع ہو رہا ہے۔ رباب ہاشم نے میزبانی سے اداکاری کی طرف آنے کے حوالے سے بتایا کہ اداکاری تو میں نے نایا میں باقاعدہ 3سال تک پڑھی ہوئی ہے۔ وہاں طلعت حسین، راحت کاظمی اور ضیاء محی الدین میرے اساتذہ رہے ہیں اور میں نے ان سے سیکھا ہے۔ وہاں دوران تعلیم بھی اداکاری کرنا چاہتی تھی مگر پڑھائی کی وجہ سے وقت نہیں ملا تھا حالانکہ اداکاری کا شوق شروع سے رہا ہے۔ میزبانی میں چونکہ وقت کم ضائع ہوتا تھا اس لئے وہ کرتی رہی۔ اب بھی میزبانی کبھی کبھار کرتی رہتی ہوں مگر جس چیز میں زیادہ مزہ آتا ہے وہ اداکاری ہے۔ اداکاری میں اگرچہ وقت بہت زیادہ درکار ہوتا ہے اور ایک ایک سین اوکے ہونے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں اس کے باوجود مجھے بوریت کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ اگر آپ اپنے کام کو انجوائے کرتے ہیں تو وہ بالکل بھی بور نہیں کرتا۔ ہاں اداکاری بہت مشکل اور تھکا دینے والا کام ہے اور ہر کوئی یہ کام نہیں کر سکتا۔ پسندیدہ کرداروں کے حوالے سے رباب ہاشم نے بتایا کہ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی کردار ایسا ہے جو میں نہیں کر سکتی۔ میں ہر طرح کے کردار بخوبی کر سکتی ہوں۔ میں ہر کردار میں نیا تجربہ کرتی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت میرے تین ڈرامے آن ائر ہیں اور ہر ایک میں مختلف کردار ہے۔ فی الحال میں خود کو خاص قسم کے کرداروں تک محدود کرنا نہیں چاہتی کیونکہ ابھی میری تجربات کرنے کی عمر ہے جو میں کر رہی ہوں۔ کامیڈی ابھی تک میں نے ٹیلی ویژن پر نہیں کی البتہ تھیٹر پر ضرور کی جسے لوگوں نے پسند بھی کیا تھا۔ تھیٹر پر راحت کاظمی کے ساتھ ’’علی پیار اور ابا جان اور آدھے ادھورے کیا ہے۔ آدھے ادھورے دو بار کر چکی ہوں۔ ایک روسی کھیل ’’میرج پرپوزل‘‘ بھی کیا ہے۔ زین احمد نے ڈائریکٹ کیا تھا جو ثمینہ احمد کے بیٹے ہیں اور نایا میں ڈائریکٹر بھی ہیں۔ یہ کھیل بھی ہم دو تین بار پیش کر چکے ہیں۔ شوبز میں رول ماڈل کے حوالے سے وہاب ہاشم نے بتایا کہ میں نے راحت کاظمی، ضیاء محی الدین اور طلعت حسین جیسے لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے جو واقعی لیجنڈ ہیں۔ قومی خان کے ساتھ میں اس ڈرامے میں کام کر رہی ہوں اور بہت کچھ سیکھ رہی ہوں۔ میں ذاتی طور پر ان کی مداح ہوں۔ میں نے باقی سنٹرز سے بھی بہت سیکھا ہے۔ اس لئے رول ماڈل کے طور پر کسی ایک سینئر فنکار کا نام نہیں لے سکتی۔ جہاں تک ساتھی فنکاروں کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی کا تعلق ہے تو سمیع کے ساتھ میں یہ تیسرا ڈرامہ ہے ان کے ساتھ دوستی ہے اور وہ بہت اچھے ساتھی فنکار ہیں۔ اسی طرح احسن خان کے ساتھ بھی اچھی ہم آہنگی ہے عدنان صدیقی کے ساتھ کام کر کے بھی بہت مزہ آیا ہے۔ لڑکیوں میں مایا علی کے ساتھ زیادہ کام کیا ہے اور ان کے ساتھ کام کر کے مزہ آیا ہے۔
ٹی وی کے لوگ اب فلموں کی طرف آ رہے ہیں اور اچھی فلمیں بھی بن رہی ہیں۔ ان فلموں میں کام کرنے کے حوالے سے رباب ہاشم نے بتایا کہ مجھے ایک آدھ فلم کی پیشکش ضرور ہوئی ہے لیکن جب میں نے سکرپٹ وغیرہ دیکھ کر کام نہیں کیا کیونکہ ابھی میرے پاس بہت وقت ہے۔ ابھی سیکھ رہی ہوں۔ مستقبل میں اگر کسی بہت اچھی فلم میں کام کی پیشکش ہوئی تو ضرور کرونگی۔ پاکستانی ڈرامہ کے ماضی اور حال کے حوالے سے رباب ہاشم نے بتایا کہ ہر چیز وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے ڈرامہ کا بھی ارتقا ہوا ہے۔ ماضی کا ڈرامہ آج کے ڈرامے سے قدرے مختلف ہے لیکن وہ آج بھی ہمارے لئے کلاسک کا درجہ رکھتا ہے۔ اب نئے لوگ آ گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں بھی بہت زیادہ جدت آ گئی ہے۔ آج کے ڈائریکٹر بالکل مختلف انداز میں کام کر رہے ہیں۔ اگلی دہائی میں ہمارا ڈرامہ بالکل ہی تبدیل ہو جائیگا۔ ڈرامہ کے حوالے سے ایک مسئلہ ضرور ہے کہ کہانیوں میں کافی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے لوگ بالخصوص لکھنے والے تجربات بھی نہیں کرنا چاہتے۔ اب سکرپٹ میں کچھ تبدیلی آ رہی ہے اور وقت کے ساتھ مزید تبدیل ہو گا۔آج کل ڈراموں کی اکثر کہانیاں عورت کی مظلومیت کے گرد ہی گھوم رہی ہیں عورت کو بے چاری بنا کر ہی پیش کیا جا رہا ہے۔ شاید یہ ڈرامہ کی ریٹنگ کیلئے ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے رباب ہاشم نے بتایا کہ ہاں ایسا ہی ہو رہا ہے جو نہیں ہونا چاہئے۔ ایسے ڈراموں کی ریٹنگ واقعی زیادہ ہوتی ہے لیکن ریٹنگ ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ ہم پر معاشرتی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ لاکھوں کروڑوں لوگ ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیں نئے نئے موضوعات کو بھی لینا چاہئے۔ رباب ہاشم نے بتایا کہ میں مستقبل میں خود کو دریافت کرنا چاہتی ہوں۔ اس وقت اداکاری کر رہی ہوں تو اس سے بھرپور لطف اندوز ہو رہی ہوں۔ اینکرینگ میں اگر بہت اچھی پیشکش ہو تو ضرور کرتی ہوں۔ میں وہ کام کرتی ہوں جس سے مجھے مزہ آئے اور وہ مجھے بوجھ نہ لگے۔ مجھے جب لگے گا کہ مجھ میں مزید دریافت کرنے کی صلاحیت ہے تو اس وقت تک کرتی رہونگی۔ انسان اسی طرح گروم کرتا ہے۔ ہمارے ڈرامے کے کس شعبے میں بہتری کی گنجائش ہے؟ اس حوالے سے زباب ہاشم نے بتایا کہ سکرپٹ کے شعبے میں میرے خیال میں بہتری کی گنجائش ہے۔ موضوعات میں بھی جدت لانے کی ضرورت ہے۔ میری تعلیم اگرچہ مارکیٹنگ میں ہے لیکن میں اداکاری کر رہی ہوں کیونکہ دونوں شعبوں کا ایک دوسرے سے تعلق بن ہی جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے مستقبل میں کسی اور شعبے کی طرف آ جاؤں اور جرنلزم کی طرف بھی جا سکتی ہوں۔ جہاں تک ماڈلنگ کا تعلق ہے تو میں نے کمرشلز کئے ہیں لیکن ریمپ ماڈلنگ نہیں کی۔ ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں آ جاؤں فی الحال تو ڈراموں میں ہی بے حد مصروف ہوں۔ رباب ہاشم نے کراچی میں ہی کام کیا ہے اور لاہور میں پہلا ڈرامہ کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے رباب نے بتایا کہ لاہور میں کام کر کے بہت مزہ آ رہا ہے۔ جہاں تک کام کے فرق کا تعلق ہے تو کراچی میں کام بہت تیز ہوتا ہے۔ لوگ تو لاہور کے بھی بہت اچھے ہیں۔ ہاں لاہور میں کسی حد تک پروفیشنل ازم کا فقدان ہے اور تکنیک کار وغیرہ وقت کی زیادہ قدر نہیں کرتے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ لاہور میں زیادہ کام نہیں ہوتا۔ جب زیادہ کام ہو گا تو وہ بھی وقت کی قدر کرنے لگیں گے۔ اب لاہور میں بھی کراچی کے لوگ ڈرامہ بنانے آ رہے ہیں کیونکہ لوکیشنز تبدیل کرنا ضروری تھا۔رباب ہاشم کی تاریخ پیدائش 28نومبر ہے۔ کراچی میں ہی پلی بڑھیں اور تعلیم حاصل کی۔ 5فٹ 8انچ قد کی حامل سروقامت رباب ہاشم سرخ رنگ کو اپنا پسندیدہ قرار دیتی ہیں۔