،تحریک انصاف کے ارکان پر بیک وقت پھولوں اور سنگریزوں کی بارش

،تحریک انصاف کے ارکان پر بیک وقت پھولوں اور سنگریزوں کی بارش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ :قدرت اللہ چودھری


  ’’موقع بھی تھا اور دستور بھی ‘‘اس لئے جو کچھ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تحریک انصاف کے ارکان کے ساتھ ہوا، اس پر حیران ہونے کی چنداں ضرورت نہیں،تحریک انصاف کا تو کراچی کے حلقہ نمبر 246میں ایم کیو ایم کے ساتھ یُدھ پڑا ہوا ہے،روزانہ کارکن آپس میں الجھ پڑتے ہیں، تھانوں میں ایف آئی آر تک درج ہو چکی ہیں اور عمران خان اعلان کر چکے ہیں کہ ان کے وکیل تیار ہیں ، لندن میں الطاف حسین کے خلاف بھی مقدمات کرائے (اورلڑے) جائیں گے،ایسے میں جب تحریک انصاف کے ارکان آٹھ ماہ بعد ’’جعلی پارلیمنٹ‘‘میںآئے تو ایم کیو ایم نے ان کے گلے میں ہار تو نہیں ڈالنے تھے، سو جو کچھ ایم کیو ایم اس موقع پر کر سکتی تھی اس نے کیا، اس کا موقف ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان اول تو مستعفی ہو چکے ، استعفے منظور نہیں ہوئے تو اس کے بعد وہ چالیس روز تک اجلاس سے غیر حاضر ہونے کی بنا پر اپنی رکنیت ختم کر چکے ہیں اس لئے اب وہ ’’ایوان میں اجنبی ‘‘ ہیں۔ فاروق ستارنے یہاں تک کہہ دیا کہ عمران خان نے اخلاقی دیوالیہ پن کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔مولانا فضل الرحمن گفتگو میں ایک رکھ رکھاؤ اور توازن رکھتے ہیں تاہم انہوں نے بھی کہا کہ یہ لوگ اس ایوان کے لئے اجنبی ہیں۔تحریک انصاف نے جب اسمبلیوں میں دوبارہ جانے کا فیصلہ کیا تھا تو انہیں اتنا ادراک تو ہو گا کہ دھرنوں میں وہ زبان و بیان کے جو شاہکار رقم کرتے رہے ہیں اس کا کچھ نہ کچھ اظہار ایوان میں بھی ہو سکتا ہے اس لئے اگر پیپلز پارٹی نے ’’بہارو پھول برساؤ ‘‘کا طرز عمل روا رکھا تو خواجہ آصف سمیت ایم کیو ایم اور جے یو آئی نے ارکان کی جانب سنگریزے اورکنکریاں پھینکیں ۔یہ درست ہے کہ تحریک انصاف حکومت سے اپنا ایک بڑا مطالبہ منوا کر ایوان میں آئی ہے اور ایک لحاظ سے اسے اپنی فتح بھی قرار دے سکتی ہے اور دے بھی رہی ہے لیکن ایم کیو ایم کا اس سے کیا لینا دینا،وہ تو اپنے لیڈرکے خلاف بیانات کا بدلہ بھی اسی فلور پر لینا چاہتی ہوگی۔
مخدو م جاوید ہاشمی نے ابھی کل ہی کہا ہے کہ عمران خان نے کراچی کے جلسے کے بعد الطاف حسین کاشکریہ ادا کیا تھا، لیکن وہ زمانہ گزر گیا ، دھرنے بھی قصہ ماضی ہوئے اور جلسے بھی ،دھرنوں کا مسودہ بھی بوسیدہ ہو گیا ، جنہوں نے لکھا اب ان کے ہاتھوں میں بھی جنبش نہیں۔آنکھوں میں دم ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ ہم ان آنکھوں کو غور سے دیکھ نہیں سکے۔
ایوان میں اگر ایم کیو ایم اور جے یو آئی (ف) نے تیر و نشترچلائے تو پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف کے زخموں پر نرم الفاظ کا مرہم رکھا، اس خورشیدشاہ نے بھی جسے دھرنے کے دنوں میں وزیر اعظم کا چپراسی تک کہا گیا، لیکن ان کا حوصلہ ہے کہ انہوں نے نہ اس وقت اس کا برا منایا تھا اور نہ آج بدلہ لینے کی کوشش کی جب تحریک انصاف کے ارکان اس کے چیئرمین سمیت مخالفانہ جملوں کی زد میں تھے ، یہ تو خورشید شاہ تھے، اعتزاز احسن نے تو خواجہ محمدآصف کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جنہوں نے تحریک انصاف کے لیڈروں کی ماضی کی تقریروں کے حوالے سے بعض سخت باتیں کہہ دی تھیں ۔
بہرحال جب ’’اجنبیوں‘‘ کے خلاف سخت جملوں کا طوفان تھماتو ارکان مشترکہ اجلاس کے اصل مقصد کی جانب بھی متوجہ ہوئے۔ یہ اجلاس یمن کے بحران کے حوالے سے بلایا گیا ہے اور اس میں ارکان پارلیمنٹ نے یہ طے کرنا ہے کہ اس بحران کے سلسلے میں پاکستان کا کردارکیاہوگا؟کیا سعودی عرب میں فوج بھیجنی چاہیے یا نہیں، وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے ایوان کو بتایا کہ سعودی عرب نے پاکستان سے بری،بحری اور فضائی مددمانگی ہے اورہم نے سعودی عرب کو بتایا ہے کہ ان کے ملک کی سالمیت کے دفاع میں تعاون کیا جائیگا۔سعودی عرب کی سلامتی کونقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے تاہم انہوں نے پارلیمنٹ کے ارکان سے کہا کہ حتمی فیصلہ پارلیمنٹ کی منظوری اور سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے کیا جائیگا۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یمن میں فرقہ وارانہ جنگ نہیں ہے، یمن کی صورتحال پر پاکستان کو ذہانت کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔حالات ناگزیرہوئے تو پاکستان کو کرداراداکرناچاہیے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اگر تحریک انصاف کے ارکان کو سخت جملوں کا سامنا تھا تو جہانگیر ترین اسمبلی سے باہر خواجہ آصف پر برس رہے تھے جنہوں نے بقول ان کے ،اسحق ڈار کا سر شرم سے جھکادیا، ان کا کہنا تھا کہ وہ اسحاق ڈار کی درخواست پرواپس آئے ہیں۔جہانگیر ترین پارلیمنٹ کے رکن نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنے حلقے میں ایک آزاد امیدوار سے ہار گئے تھے، اس لئے انہیں پارلیمنٹ سے باہر ،پارلیمنٹ میں کی گئی،باتوں کاجواب دینا پڑا،وہ یہاں تک کہہ گزرے کہ نواز شریف اور ن لیگ کی دوغلی پالیسی اب زیادہ دیر تک نہیں چلے گی۔عدالتی کمیشن دودھ کا دودھ اورپانی کاپانی کر دے گا۔ جہانگیر ترین اگربولے تھے تو خواجہ سعد رفیق کیوں چپ رہتے انہوں نے بھی تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کوکھری کھری سنا دیں ۔انہوں نے جہانگیر ترین کے اس بیان پر کہ نواز شریف اپنے وزیروں کولگا دیں کہا کہ پہلے خود جہانگیر ترین اپنے لیڈر کی زبان کو لگام دیں۔

مزید :

تجزیہ -