پانامہ لیکس اور وزیراعظم کی پیشکش

پانامہ لیکس اور وزیراعظم کی پیشکش
پانامہ لیکس اور وزیراعظم کی پیشکش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پانامہ لیکس نے عالمی سطح پر ہنگامہ سا برپا کردیا ہے۔ایک کروڑ 15لاکھ دستاویزات پر مشتمل پانامہ پیپرز میں دُنیا کے بڑے بڑے کاروباری حضرات ، بعض سربراہانِ مملکت یا اُن کے رشتہ داروں، ججوں ، ہالی وڈ اور بالی وڈ کے ٹاپ سٹارز اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی آف شورکمپنیوں سے متعلق معلومات مہیا کی گئی ہیں، جس کے بعد دُنیا بھر کے اخبارات اور ٹی وی سکرینوں پر شوروغل برپا ہے۔ دُنیا کے 300صحافیوں اور 100میڈیا ہاؤسز نے ان دستاویزات کا بغور مطالعہ کیا اور تحقیقاتی رپورٹنگ سے منسلک ایک تنظیم۔۔۔ International Consortium of Investigative Journalists۔۔۔ نے ان دستاویزات کو انٹرنیٹ پر ڈال دیا۔اس میں روسی صدر پیوٹن ، سعودی شاہ، شاہ سلمان، چینی صدر شی چن پنگ اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کے صاحبزادگان کو آف شور کمپنیوں کا مالک بتایاگیا ہے۔ یہ عالمی سطح کا اہم سکینڈل ہے لیکن ضروری نہیں کہ یہ 100فیصد حقائق پر بھی مبنی ہو۔ یہ کمپنیاں بُنیادی طور پر’’ غیر ضروری‘‘ ٹیکس سے بچنے کے لئے بنائی جاتی ہیں، لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کے ذریعے ٹیکس چوری کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ یہ سوال بھی نہیں کیا جاتا کہ سرمایہ کہاں سے اور کیسے آیا؟


اگر گوادر کو ٹیکس فری زون قرار دیاجاتا ہے توکیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہاں کام کرنے والے لوگ ٹیکس چوری کریں گے؟یا جیسے دبئی کو ٹیکس فری زون کا درجہ حاصل ہے تو کیا وہاں بزنس کرنے والا ٹیکس چور ہے؟ اس سکینڈل میں تقریباً 200پاکستانیوں کا بھی ذکر ہے، جن میں سیاست دانوں کی تعداد آٹھ ، دس سے زیادہ نہیں۔ سب سے اہم معاملہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے بچوں حسین نواز، حسن نوازاور مریم بی بی کا ہے ۔ حسین نواز بہت کم میڈیا میں آتے ہیں، بلکہ نہ ہونے کے برابر، لیکن پانامہ لیکس کے بعد وہ متعدد بڑے ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دے چکے ہیں جن میں بہت عمدہ طریقے سے انہوں نے اپنا مؤقف پیش کیا۔وہ اِن آف شور کمپنیوں کوتسلیم کرتے ہیں، بلکہ پانامہ لیکس سے پہلے ہی وہ بعض ٹی وی انٹرویوز میں واضح انداز میں کہہ چکے تھے کہ ہم نے یہ کمپنیاں اپنی محنت کے پیسے سے بنائی ہیں، ان میں کوئی غیر قانونی ذریعہ شامل نہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ جب جنرل (ر) پرویز مشرف نے اکتوبر1999ء کے شب خون کے بعددسمبر2000ء میں ہمیں جلا وطن کیا تو ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ ہمارے آبائی گھر پر بھی جو ماڈل ٹاؤن میں واقع ہے ، غاصبانہ قبضہ کرلیا گیا۔سعودی عرب میں بینکوں سے قرضے لے کر میرے دادا نے مکہ المکرمہ کے نواح میں سٹیل فیکٹری لگائی، جسے 2005ئمیں بیچ کر لندن میں پراپرٹی کا کاروبار شروع کیا۔


میاں محمد نواز شریف کے چھوٹے صاحبزادے حسن نواز تو1996ء سے ہی لندن میں مقیم ہیں۔ اُنہوں نے وہیں تعلیم مکمل کی اور پھر رئیل اسٹیٹ کا بزنس شروع کردیا۔حسین نواز نے مزید کہا کہ اُن کی بہن مریم نواز کی کوئی کمپنی نہیں، بلکہ وہ اِن کی ایک کمپنی میں محض ٹرسٹی ہیں کہ حسین کے ساتھ کسی حادثے کی صورت میں وہ اِن کے اثاثے قانون کے مطابق اُن کے بچوں میں تقسیم کردیں۔ حسین نواز نے بڑی جرأت کے ساتھ تسلیم کیا کہ یہ کمپنیاں اُن کی ہیں۔ اِخلاقی طور پر شریف فیملی نے بڑا پن دِکھایا اور عوام کے سامنے حقیقت رکھ دی۔یہ رویہ اُن کے سیاسی حریفوں کے رویے کے برعکس تھا جو سرے محل، سوئس اکاؤنٹس ، ہیروں کے ہار، بنی گالہ کی اصل ملکیت ، شوکت خانم کے فنڈز سے باہرآف شور کمپنیوں سے انکار کرتے رہے ۔ادھر اپوزیشن کوتوتنقید برائے تنقید کے لئے کوئی بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ اُسے وزیراعظم کو رگیدنے کا ایک اور موقع مل گیا تو وہ اِسے ضائع کیوں جانے دے۔ اس میں ہمارے عمران خان حسبِ روایت اور حسبِ عادت پیش پیش ہیں۔ عمران خان کا اپنا صوبہ خیبر پختونخوا آج کل بدترین سیلاب کی زد میں ہے۔ یہ اگرچہ قدرتی آفت ہے لیکن جو لوگ مکانات کی چھتیں گرنے یا دیگر وجوہات کی بناء پر ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور ہلاکتوں میں خطرناک حد تک اِضافہ ہورہا ہے ،اس کا ذمہ دار کون ہے؟


جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق لاہورمیں بیٹھے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کو پانامہ لیکس پر ٹکرز دے رہے ہیں، لیکن خیبرپختونخوا حکومت کے حلیف ہونے کے ناطے عمران خان کو بنی گالہ محل سے نکال کر خیبرپختونخوا کے متاثرہ علاقوں میں نہیں لے جاتے۔دوسری طرف پشاور میں چوہوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا، جس پر وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید کا تبصرہ دلچسپ ہے کہ نوازشریف دہشت گردوں کو ،جبکہ عمران خان چوہوں کو ماررہے ہیں۔ اُدھر سوشل میڈیا پر کسی نے دلچسپ پوسٹ کی ’’2013میں شیر کے شکار کے لئے نکلنے والا ،2016ئمیں چوہوں کا شکار کررہا ہے‘‘، خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما،سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی کا کہنا ہے کہ شہباز شریف پنجاب میں طالب علموں میں لیپ ٹاپ تقسیم کررہا ہے تو عمران خان خیبرپختونخوا میں طالب علموں کو ڈنڈے پکڑارہا ہے کہ چوہے ماریں۔۔۔ بات پانامہ لیکس سے ہوتی ہوئی کہیں اور نکل گئی۔15اپریل کو وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں خود کو اور اپنی فیملی کواحتساب کے لئے پیش کردیاہے، جس کے لئے اُنہوں نے اعلیٰ سطحی جوڈیشل کمیشن کے قیام کا اعلان کیا اور مخالفین سے کہا کہ وہ روزانہ الزامات کا تماشہ لگانے کی بجائے کمیشن میں جائیں اور ثبوت دیں۔ وزیراعظم کا یہ اقدام قابلِ تحسین ہے۔۔۔ اور آخر میں پانامہ لیکس کے بارے میں اہم ترین بات یہ کہ خود ان میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ کمپنیاں غیر قانونی ہوں اور یہ بھی کہ اِن میں استعمال ہونے والا سرمایہ غیر قانونی ہو۔

مزید :

کالم -