پولیس کو کرپشن فری ہونا چاہیے
امن و امان کی بحالی اور جرائم کی بیخ کنی پولیس کے فرائض اور ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ پولیس کا کردار مثالی نہ ہو تو جرائم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا، نہ ہی امن و امان کی صورتِ حال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ہم ’’پولیس‘‘ کی کارکردگی کو دیکھتے ہیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے پولیس اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہو رہی۔ یہ عمل گزشتہ 68سال سے ایسے ہی جاری ہے۔ اگرچہ پولیس اصلاحات کے نام پر کئی بل اسمبلیوں سے منظور ہوئے۔ ڈیپارٹمنٹ نے خود بھی پولیس نظام میں بہتری لانے کے عزم کا اظہار کیا۔ رولز بنائے گئے، لیکن صرف اعلانات اور دستاویزات کی حد تک، یہ رولز کبھی نافذ العمل نہ ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کا پورا ڈھانچہ اب تک متزلزل اور غیر مستحکم ہے۔ اس میں توازن نہیں آ سکا۔
سائل پریشان حال رہتے ہیں۔ حصولِ انصاف کے لئے تھانوں میں جاتے ہیں ،لیکن اُن کی درخواستوں پر مقدمات کا اندراج نہیں ہوتا۔ پولیس جو مقدمات اندراج کے ’’قابل‘‘ سمجھتی ہے اُس میں بھی رشوت طلب کی جاتی ہے۔ یعنی جائز ’’حالات‘‘ میں بھی اندراج مقدمہ کا حصول انتہائی مشکل بن جاتا ہے۔ سائلین داد رسی کے لئے افسران کے دفاتر کے چکر لگاتے ہیں، لیکن وہاں بھی شنوائی کا کوئی بہتر نظام موجود نہیں۔ پولیس افسران درخواست فارورڈ کر کے سائل کو دوبارہ تھانے بھیجتے ہیں تو اُس پر پولیس افسر کا ایسا کوئی مناسب حکم نہیں ہوتا کہ ایس ایچ او فوری اس حکم کی تعلیم کا پابند ہو۔ بس درخواست پر افسر کے دستخط کے ساتھ یہ حکم ہوتا ہے کہ ’’قانون کے مطابق کارروائی کی جائے‘‘۔ اب یہ ایس ایچ او کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اس پر کارروائی کرتا ہے یا نہیں۔ اکثر اُس کا مؤقف ہوتا ہے کہ چونکہ درخواست پر قابل دست اندازی پولیس جرم نہیں بنتا۔ اس لئے درخواست کو، چاہے وہ انسپکٹر جنرل پولیس کے آفس سے ہی ’’فارورڈ،، کیوں نہ ہو کر آئی ہو، داخل دفتر کر دیتا ہے۔
گذشتہ چند سالوں سے تھانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے۔ ایک حصّہ پولیس کے آپریشن ونگ پر مشتمل ہے، جبکہ دوسرا حصّہ انویسٹی گیشن ونگ پر مشتمل ہے۔ ایف آئی آر درج ہو جائے تواُس کی ایک کاپی انویسٹی گیشن انچارج کے سپرد کی جاتی ہے۔ اُس کا دفتر بھی تھانے میں ہوتا ہے۔ انچارج انویسٹی گیشن انسپکٹر یا سب انسپکٹر رینک کا ہوتا ہے۔ انچارج کے اختیار میں شامل ہے کہ وہ درج شدہ مقدمے کی تفتیش خود کرے یا اپنے کسی ماتحت کو دے دے۔ آپریشن اور انویسٹی گیشن ونگ الگ الگ بنانے کا مقصد یہی تھا کہ پولیس کی کارکردگی میں اضافہ ہو، لوگوں کا پولیس پر اعتماد بڑھے، لیکن صورت حال اس کے بالکل برعکس دکھائی دیتی ہے۔ خیال تھا کہ علاقہ پولیس کو بعض صورتوں میں چونکہ انتظامی ڈیوٹی بھی دینا پڑتی ہے جس سے درج شدہ مقدمات کی تفتیش متاثر ہوتی ہے جو وقتِ مقررہ پر نہیں ہو پاتی۔ اس لئے ہر تھانے میں ایک انویسٹی گیشن ونگ قائم کیا گیا، تاکہ تفتیش کا عمل سرعت سے آگے بڑھے، نیز قانون میں دئیے گئے مقررہ وقت کے مطابق مقدمے کا چالان مجاز عدالت میں پیش ہو سکے، مگر انویسٹی گیشن ونگ تشکیل پا جانے کے باوجود لوگوں کے مسائل اور مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ پہلے مدعی اور ملزم ایک جگہ پیسے دیتے تھے اب دونوں جگہ دیتے ہیںیعنی آپریشن ونگ میں بھی اور انویسٹی گیشن ونگ کو بھی۔
انویسٹی گیشن ونگز میں ایسے تفتیشی افسران کی اکثریت موجود ہے جو تفتیشی عمل سے لاعلم اور غیر تربیت یافتہ ہے۔ تفتیش کے لئے بھی وہ حِس اور ذہانت موجود نہیں جو اس کے لئے ضروری ہے۔ تفتیش میں کیا قانونی جزئیات ہوتی ہیں؟ انہیں تفتیش کا عمل کیسے کرنا چاہیے انہیں کچھ بھی معلوم نہیں۔ ثبوت کیسے اکٹھے کرنے ہیں۔ چالان مرتب کرتے وقت کن اہم چیزوں یا شواہد کا خیال رکھنا ہے اور کسی بھی باریکی کو نظر انداز نہیں کرنا، چونکہ تفتیشی آفیسر اس سے آگاہ نہیں ہوتا، اس لئے چالان میں سقم رہ جاتے ہیں اور ملزمان عدالتوں سے سزایاب نہیں ہوتے۔ پولیس کے لئے ہر سال بجٹ میں کروڑوں روپیہ مختص کیا جاتا ہے، تاکہ اُس کی کارکردگی بہتر ہو سکے۔ پنجاب پولیس میں تنخواہوں کی شرح بھی بہت بہتر ہو گئی ہے۔ تاہم اُن کی ذہنی اور عملی تربیت کا کوئی اہتمام اور بندوبست نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس سے لوگوں کا اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ انہی وجوہات کے باعث پولیس ہمیشہ ہی سے عوام کے غیظ و غضب کا شکار رہی ہے، وہ اپنا اعتماد لوگوں میں کبھی بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔تنخواہیں بڑھنے کے باوجود کرپشن کا جو عفریت پولیس میں سرایت کر گیا ہے۔ وہ بھی ناانصافی کو جنم دیتا ہے پولیس کا محکمہ جب تک کرپشن فری نہیں ہو جاتا ہمیں اس سے اچھی توقع وابستہ نہیں کرنی چاہیے۔ جب تک دیانت دار اور فرض شناس افسران کی تعیناتیاں فیلڈ میں نہیں ہوتیں۔ ہم پولیس سے اچھے نتائج کی توقع کبھی نہیں کر سکتے۔
