فوج کے میڈیکل شعبے پر ایک گرانقدر تصنیف!

فوج کے میڈیکل شعبے پر ایک گرانقدر تصنیف!
فوج کے میڈیکل شعبے پر ایک گرانقدر تصنیف!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فوج کے کئی شعبے ہیں۔ ان میں لڑاکا شعبوں کو Fighting Arms ،امدادی شعبوں کو Supporting Armsاور خدماتی شعبوں کو Servicesکہا جاتا ہے۔ سروسز میں میڈیکل کا شعبہ ایک ایسا لازمی اور ناگزیر شعبہ ہے کہ سپاہی بے شک میدانِ جنگ میں برسرپیکار ہو نہ ہو، بے شک جنگ کی تیاری (ٹریننگ) کر رہا ہو یا زمانہ ء امن میں ملک کے کسی بھی حصے میں خدمات انجام دے رہا ہو اس کو اور اس کے اہلِ خاندان کو بیماری اور صحت کے ہزاروں مسائل سے دن رات پالا پڑتا ہے۔ انسان اور بیماری دو لازم و ملزوم حقیقتیں ہیں۔ اس لئے فوج ہی نہیں بلکہ سویلین زندگی میں بھی اس کو ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا سامنا رہتا ہے۔ کوئی بھی ذی روح ہمیشہ تندرست نہیں رہ سکتا۔


جدید طب کے موضوع پر اردو زبان میں مطبوعہ مواد کی شدید کمی ہے۔ انگریزی زبان میں جو کتابیں ہیں وہ میڈیکل کالجوں کے نصاب اور اس کے مشتقات پر مشتمل ہیں جو عام قاری کے دائرہ تفہیم سے تقریباً خارج تصور کی جاتی ہیں۔ تاہم پچھلے دنوں میری نظر سے ایک فوجی ڈاکٹر کی خودنوشت گزری جو انگریزی زبان میں تھی۔ میں چونکہ باقاعدہ میڈیکل سائنس کا طالب علم نہیں رہا اور طبی موضوعات پر میرا مطالعہ بہت محدود ہے اس لئے میں نے اس کتاب کی نیم دلی سے ورق گردانی کی۔ یقین کیجئے اس کی عبارت اور اندازِ تحریر اتنا سادہ ، دلچسپ اور برجستہ تھا کہ میں نے دوچار نشستوں میں پوری کتاب کا مطالعہ کر ڈالا۔ دل نے چاہا کہ اس پر اپنے قارئین کو آگہی دوں۔ درج ذیل سطور اسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر تحریر کی جا رہی ہیں۔ چونکہ کتاب کے بعض مندرجات صحت اور بیماری کی وجوہات اور علاج سے بحث کرتے ہیں اس لئے ایسے قارئین جو انگریزی زبان سے شغف رکھتے ہوں ان کو اس چھوٹی سی کتاب کو ضرور پڑھنا چاہیے اور جو قارئین میڈیکل شعبے کی مشکل اور ادق اصطلاحوں سے زیادہ واقف نہ ہوں، ان کو بھی اس کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ اس میں دقیق اور پیچیدہ طبی الفاظ و اصطلاحات کی بھرمار نہیں۔ مصنف نے اپنی پروفیشنل زندگی کے شب و روز کو صرف پروفیشنل شعبے تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ ان کے مطالعے اور مشاہدے کا کینوس وسیع ہے جس سے عام قاری استفادہ کر سکتا ہے۔
اس کتاب کے آٹھ ابواب ہیں جن کی فہرست اور ذیلی عنوانات درجِ ذیل ہیں:
1۔ علم الادویات کا سفر
(1) زمانہ ء قبل از تاریخ، یونانی دیوپیکر
(2) قرونِ وسطیٰ کا یورپ، مسلمان، تحریکِ احیائے علوم
(3) علم و آگہی کا دھماکہ، جینیاتی انقلاب
2۔ برصغیر میں علم الادویات (Medicine)
(1) آیورویک
(2)یونانی۔ عربی، مغربی میڈیسن
(3) فارما انڈسٹری، ڈرگ ریگولیشن اتھارٹی،
بایومیڈیکل انڈسٹری
(4)نیشنل ہیلتھ پالیسی، مشکلات و مسائل
3۔ ذات کا سفر
(1) ابتدائی تعلیم۔ جموں ، سیالکوٹ
(2)کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور
(3)آرمی میں جبری بھرتی

الف۔ فیلڈ سروس، پوسٹ گریجوایٹ ٹریننگ، آرمڈ فورسز میڈیکل کالج، کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (CMH) مری، ملٹری ہسپتال راولپنڈی، سی ایم ایچ پشاور، نوشہرہ، برطانیہ میں ہائر سٹڈیز۔ لندن، ایڈنبرگ، گھر واپسی، سی ایم ایچ کوئٹہ، دہران(سعودی عرب)،PAF ہسپتال سرگودھا، سی ایم ایچ کھاریاں، سی ایم ایچ لاہور۔
ب۔ سول میں ڈیپوٹیشن، پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ لاہور، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈوویسکلر ڈیزیزز، شیخ زائد فیڈرل پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ، بھارت یاترا
ج۔ فوج کو الوداع، ایک خواب جو بکھر گیا
د۔رضا کارانہ کام کاج۔ پرائیویٹ سیکٹر
4۔ میڈیکل ایجوکیشن
(1) انڈر گریجوایٹ/ پوسٹ گریجوایٹ کالج آف
فزیشن اینڈ سرجن آف پاکستان میڈیکل ریسرچ
(2)پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل
(3)اشرافیہ کا اعلانِ وفات
5۔ پاکستان میں روایاتی مفروضے
(Myths)،غلط فہمیاں اور فیشن
6۔ سیاسی منظر نامے پر چند تاثرات
(1) آزادی کی جدوجہد
(2)چمنستانِ سروصنوبر میں سازش، پہلا مارشل لاء
(3)مشرقی پاکستان، یحییٰ خان، ZAبھٹو، ضیاء الحق
(4)کنٹرول شدہ جمہوریت کے دس سال،
ایک اور ملٹری مہم جوئی
(5) پی پی پی کی حکومت، مسلم لیگ (ن) کی تیسری ٹرم
(6)عدلیہ، میڈیا، بیورو کریسی، ملٹری
7۔اختتامیہ
8۔مخففات
درج بالا عنوانات اور ذیلی عنوانات سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ مصنف نے اپنی تعلیمی، پیشہ ورانہ اور بعدازریٹائرمنٹ سروس کے وسیع کینوس کو کس خوبی اور کس اختصار سے صرف دوسوا دوسو صفحات میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔آپ بلاشبہ اس کاوش کو دریا کو کوزے میں بند کردینے کا فن بھی کہہ سکتے ہیں۔ جنرل صاحب نے اپنے دو صفحوں کے مختصر سے پیش لفظ میں یہ بھی لکھا ہے: ’’اس کتاب کو انگریزی میں لکھنے کا سبب یہ ہے کہ اظہار میں آسانی رہے اور زبان و بیان کی پیشہ ورانہ اصطلاحات کو جوں کا توں اُس انگریزی زبان میں رکھ دیا جائے جو ہم نے سرکاری زبان اور ذریعہ ء تدریس کے طور پراپنا رکھی ہے۔ ہماری قومی زبان اردو کو وہ مرتبہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق تھی(اور ہے) اور نہ ہی اسے پھلنے پھولنے اور فروغ پانے کے مواقع دیئے گئے ہیں۔ چنانچہ سائنسی مواد کے دستیاب تراجم بھاری بھرکم اور دقیق معلوم ہوتے ہیں‘‘۔


شعبہ طب کا اتنا سینئر اور تجربہ کار ڈاکٹر اگر اردو زبان کے بارے میں یہ ریمارکس دے تو ان کی بات کو غور سے سننا چاہیے۔ میں نے جب کتاب کے پیش لفظ کا درج بالا پیراگراف پڑھا تو دل نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کا ماضی اردو میڈیم سکولوں سے شروع ہوا ہوگا۔ چنانچہ یہ ’’خدشہ‘‘ درست ثابت ہوا۔ آگے چل کر کتاب کے صفحہ نمبر48پر اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:


’’جموں کا پرائمری سکول کہ جہاں میں ابتدائی تعلیم کے حصول کے لئے داخل ہوا،حکومت کے زیر انتظام تھا۔ یہ سکول ہمارے پڑوس ہی میں واقع تھا اور پیدل سکول جانا کچھ مشکل نہ تھا۔ یہ ایک تنگ و تاریک سی عمارت تھی جو دوسری رہائشی عمارتوں کے درمیان واقع تھی اور شائد اول اول اسی مقصد کے لئے تعمیر کی گئی ہوگی۔ عمارت چند کمروں، ایک برآمدے اور ایک تنگ سے صحن پر مشتمل تھی۔اس میں نہ تو کھیل کود کے لئے کوئی گراؤنڈ تھا نہ کھیلنے کے لئے کوئی الگ کمرہ تھا۔ صرف ایک ہی ٹیچر تھے۔ شکل و صورت سے سخت مزاج اور درشت، گاندھی کیپ زیبِ سر رکھتے تھے اور دائیں ہاتھ میں ہمیشہ ایک ’’مولا بخش‘‘ ہوتا تھا۔ وقت کے نہایت پابند تھے اور سکول کے اوقات کی پابندی سختی سے کیا کرتے اور کرواتے تھے۔ فیس برائے نام تھی اور درسی کتب کی فراہمی والدین کے ذمے تھی۔


’’جموں، ریاستِ جموں و کشمیر کا سرمائی دارالحکومت تھا۔ اور ریاست، سرکار برطانیہ کی باجگزار تھی۔یہ شہر کوہ ہمالیہ کے سوالک پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ایک خوبصورت شہر تھا۔ اس کے پہلو میں دریائے توی بہتا تھا۔ چند کلومیٹر کے فاصلے پر دریا سے ایک نہر نکالی گئی تھی جو موسم گرما میں پارٹیوں اور سیر وتفریح کے لئے ایک پرکشش جگہ تھی۔ نہر کا پانی یخ ٹھنڈا ہوتا تھا اور اس میں کوئی انسان چند منٹوں سے زیادہ نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ اس میں آم ڈالتے تھے تو کچھ دیر بعد جم کر برف کی طرح سخت ہو جاتے تھے۔ ویک اینڈز (Weekends) پر نہر سے مچھلیاں پکڑنا معمول کی تفریح سمجھا جاتا تھا۔ سیالکوٹ سے جموں تک بس یا ریل کا سفر ایک گھنٹہ میں طے ہو جاتا تھا، اس لئے سیالکوٹ والوں کے لئے یہ جگہ پورا دن گزارنے کے لئے ایک تفریح گاہ بھی تھی۔‘‘
جموں کے بعد سری نگر کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:


’’سری نگر، ریاست جموں و کشمیر کا گرمائی صدر مقام تھا۔ اس کا رابطہ جموں سے ایک سڑک کے ذریعے قائم تھا جو ہمہ موسمی نہیں تھی۔ درۂ بانہال اور دریا کے اوپر ایک سو میٹر کی بلندی پر (نیچے شور مچاتے) دریا کا پل ڈرانے والے مناظر تھے۔ سری نگر کی ایک طرف دریائے جموں بہتا تھا اور دوسری جانب جھیل ڈل تھی۔ وادی ء خوش (Happy Valley) جو سطح سمندر سے 5300فٹ اونچی اور فلک بوس پہاڑوں میں گھری ہوئی تھی اس کی آغوش میں واقع یہ شہر دنیا بھر میں بے مثال تھا۔ خوبصورت باغات کا سلسلہ جو دامنِ کہسار سے بتدریج اوپر اٹھتے ہوئے پہاڑوں پر مغل شہنشاہوں کا بنایا ہوا تھا ایک حیران کن اور رفیع الشان منظر پیش کرتا تھا۔ جھیل میں سطحِ آب پر تیرتی خوبصورت شکارا کشتیاں، سبزیوں کے تیرتے ہوئے باغات اور دریائے جہلم میں تیرتے کشتی گھر سیاحوں کے لئے نہایت پرکشش مناظر تھے۔ شاہی چشمہ کا ٹھنڈا میٹھا پانی خصوصی طورپر اشتہا انگیز تھا اور 8500فٹ کی بلندی پر واقع گل مرگ( پھولوں کا مرغزار) ایک چھوٹا سا حسین قصبہ تھا۔ چکر کھاتے اور اونچائی کی جانب جاتے ہوئے گلمرگ کے یہ راستے پوری وادی ء کشمیر کا دلفریب نظارہ پیش کرتے تھے۔ اور سلسلہ ء کوہ ہمالیہ کی بلند ترین چوٹیوں میں سے ایک چوٹی جونانگا پربت کہلاتی تھی ایک مرعوب کن جلوہ زار تھی۔ لیکن وہاں تک پہنچنے کا واحد ذریعہ صرف خچر کی سواری تھی۔‘‘
’’ریاست کی تاریخ المناک تھی۔ صدیوں تک اس پر مقامی اور غیر ملکی حکمران مسلط رہے اور یہ ایک خودمختار ملک تصور کیا جاتا تھا تاآنکہ مغلوں نے اسے فتح کرکے اپنی عظیم سلطنت میں شامل کر لیا۔ جب 1849ء میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے دریائے ستلج کے کنارے سبراؤں نامی گاؤں کی لڑائی میں سکھوں کو شکست فاش دی تو کمپنی بہادرنے ان پر ایک کروڑ روپے کا تاوانِ جنگ عائد کر دیا۔ اتنی بڑی رقم ان کے پاس نہیں تھی اس لئے انہوں نے وادیء کشمیر تاوان کے طور پر پیش کر دی جسے انگریزوں نے فوراً ہی جموں کے ڈوگرہ حکمران کے ہاتھوں 75لاکھ روپوں کے عوض فروخت کر دیا۔اس ’’سودے‘‘ میں تمام وادی، اس کے زیر زمین خزانے ، بالائے زمین مرغزار و باغات اور آبادیاں سب شامل تھیں۔ علامہ اقبال نے جو خود کشمیری تھے اس کیفیت کا نقشہ اپنے اس فارسی شعر میں کیا خوب کھینچا ہے:‘‘
دہقان و کشت و جُو و خیاباں فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند


(ترجمہ: انہوں نے کسانوں، کھیتوں کھلیانوں، نہروں اورباغات کو فروخت کر دیا۔ پوری قوم بیچ دی اور کتنے سستے داموں بیچ دی!)
اس طرح جنرل صاحب نے اپنی تعلیمی اور طبی زندگی کے سفر کا احوال بڑے سادہ، دلچسپ اور معلوماتی انداز میں بیان کر دیا ہے۔ میڈیکل شعبے کی طبی اصطلاحات و تراکیب کو واقعی اردو کے قالب میں ڈھال کر ان کا لفظی ترجمہ کیا جائے تو اس قاری کے لئے عبارت کی تفہیم مشکل ہو جائے گی جس نے سائنسی اور طبی علوم کی تحصیل اپنے زمانہ ء طالب علمی میں نہ کی ہو۔ لیکن آج کا وہ لکھا پڑھا قاری جس نے سکول اور کالج کے زمانہ میں سائنسی مضامین کی بجائے آرٹس کے مضامین پڑھے ہوں وہ بھی طبی اصطلاحات کی ایک عمومی سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔ جنرل صاحب کا پروفیشنل سفر بڑا گوناگوں ہے۔ فوج کے ہسپتالوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اپنے خیالات و افکار کو جس مہارت اور دیانت داری سے پیش کیا ہے وہ بے مثال ہے۔ آج کا سرکاری ڈاکٹر جس نے اپنے پیشے میں ہائر پروفیشنل تعلیم حاصل کی ،وہ پرائیویٹ پریکٹس میں اتنا مصروف و مشغول ہوجاتا ہے کہ اسے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے سفر کو قلمبند کرنے کا وقت نہیں ملتا۔ اس تناظر میں جنرل افضل نجیب کی یہ کاوش حد درجہ قابل تحسین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب: سکول سے میڈیسن تک : ایک سفر
(JourneyThrough Medicine)
مصنف: لیفٹیننٹ جنرل (ر) ایم افضل نجیب
پبلشرز: دوست پبلی کیشنز، پوسٹ بکس
نمبر2958، اسلام آباد
سالِ اشاعت: 2015ء
صفحات: 228
قیمت : 550روپے

مزید :

کالم -