بلاول بھٹو نے پہلی بار اکیلے پارٹی کی قیادت، اجلاس کی صدارت کی
تجزیہ/چودھری خادم حسین
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی آئی تو اس حوالے سے کچھ گزارشات ان سطور میں کر دی تھیں کہ کالم لکھنے کا رجحان نہ بنا جس کی وجہ یہ تھی کہ اس مرتبہ برسی کا احوال دیکھ لیں تو پھر کچھ عرض کریں کہ 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد بلاول بھٹو کے چیئرمین ہونے سے اب تک انہوں نے اکیلے پارٹی کے امور سر انجام نہیں دیئے تھے اور اس مرتبہ پہلی بار وہ والد کی غیر حاضری کے بعد خود مختار انداز میں پارٹی کی قیادت کر رہے تھے خیال ہوا کہ 4 اپریل کی شام ہونے والی مرکزی ایگزیکٹو کونسل کی میٹنگ دیکھ لی جائے۔
چنانچہ ہماری توقع کے عین مطابق جس کا ذکر بھی کیا تھا اس مجلس عاملہ کے اجلاس میں کوئی اہم فیصلہ نہیں ہوا صرف اظہار خیال کیا گیا۔ چنانچہ کوئی تنظیمی فیصلہ تو نہ ہوا تاہم بلاول بھٹو کی ذات پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کو تنظیمی تبدیلیوں سمیت تمام امور کے اختیارات سونپ دیئے گئے اب یہ ان کی اپنی صوابدید ہے کہ وہ اپنے ارادوں اور عزم کے مطابق اکثر موجودہ عہدیداروں کو تبدیل کر کے ان کی جگہ کوئی متحرک اور جواں سال قیادت سامنے لاتے ہیں یا نہیں تاہم اطلاعات یہ ہیں کہ وہ خود بھی فیصلہ کر چکے ہوں تو اپنے والد کی رضا مندی ضرور حاصل کریں گے اور یہ بہت ممکن ہے کہ عمومی طور پر بلاول کی بات مان لی جائے لیکن جب دریا سامنے آئے تو اسے پار کرنے کے لئے پھر اجازت کی ضرورت ہو۔
پاکستان پیپلزپارٹی بھی ایم کیو ایم کی طرح مشکلات کا شکار ہے۔ بعض عہدیدار پارٹی کارکنوں کو پسند نہیں لیکن وہ تبدیل نہیں ہو پا رہے کہ ان کا کھونٹا مضبوط ہے۔ دوسری طرف ناراض حضرات تا حال جوں کے توں والی پوزیشن اختیار کئے بیٹھے ہیں ان کے واپس لانے کے اعلان ہوتے ہیں لیکن یہ عملی صورت اختیار نہیں کر پاتے پنجاب، خیبرپختون خوا اور بلوچستان کی صورت حال واضح ہے۔ پارٹی چاروں صوبوں میں ضرور ہے لیکن تین صوبوں میں کوئی سرگرمی نہیں اور سندھ میں پارٹی برسر اقتدار ہے تاہم باہمی اختلافات بڑھتے نظر آتے ہیں۔ ہالا کے مخدوم ناراض ہیں تو بجارانی ان سے بھی پہلے لاتعلق ہو چکے۔ میر ہزار خان بجارانی اور مخدوم جمیل الزمان یا مخدوم رفیق الزماں میں سے کوئی بھی گڑھی خدا بخش میں موجود نہیں تھا شاید ناراضگی دور نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ یہ خبر بھی زیر گردش ہے کہ پیپلزپارٹی میں سے پھر ایک پیٹریاٹ برآمد کی جا رہی ہے اور یوں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان مساوات قائم ہو جائے گی۔ اس حوالے سے پارٹی راہنما مضطرب ضرور ہیں لیکن مطمئن بھی ہیں کہ شاید اس بار ایسا نہ ہو سکے ہونا ہوتا تو ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کر گزرے ہوتے اور قوم پرستوں کے ساتھ نظریاتی جماعتوں (مسلم لیگوں) کا متحدہ محاذ نہ بننا اس کا قیام ہی پریشر پالیٹکس کا ایک حصہ ہے۔ تاہم اگر بلاول اپنے قول کے مطابق متحرک ہو کر پارٹی کو بھی متحرک نہیں کرتے تو سب کچھ ممکن ہے اس لئے اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔
جہاں تک خود ذوالفقار علی بھٹو کی ذات کا تعلق ہے تو اس بار پنجاب سے کم شرکت کے باوجود گڑھی خدا بخش کا اجتماع بڑا اور موثر تھا اس سے ثابت ہوا کہ بھٹو کی ذات میں کشش باقی ہے اور اب تو ان کے نقاد بھی ان کی خوبیوں کے قائل ہو کر تعریف کر رہے ہیں اور مجموعی طور پر یہ تاثر بن گیا کہ بھٹو کی پھانسی ’’عدالتی قتل‘‘ تھا اور ان کو اقتدار سے الگ کر کے سزائے موت دینا، مفادات کو پورا کرنا تھا اور وہ بھی اپنوں سے زیادہ سامراجیوں کے، بہر حال ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔
"Look young man I want to Live in the history"
اور بھٹو تاریخ میں زندہ ہے۔