قاری محمد امیر عالم نقشبندیؒ کے حالاتِ زندگیز
(1946ء تا 2010ء)
قاری محمد امیر عالم نقشبندیؒ ۔ آزادکشمیر کے علاقے نکیال سیکٹر کے چھوٹے سے گاؤں جبر میں زمیندار چوہدری صاحب الدین کے گھر 1946ء میں پیدا ہوئے۔ ابھی صحیح چلنا بھی نہ سیکھا تھا کہ ماں باپ دنیا سے چلے گئے۔ بہن بھائیوں کے نام بولنا سیکھے ہی تھے کہ وہ بھی ساتھ چھوڑ گئے۔
آپ کی پرورش جبر کے قریبی گاؤں لنجوٹ میں رہنے والی آپ کی پھوپھی محترمہ نے کرنا شروع کر دی۔جامعہ نظامیہ رضویہ اندرون لوہاری گیٹ داخل ہوئے اور وہیں سے قاری محمد حنیف ملتانی سے حفظ مکمل کیا۔ اس دوران جامعہ نعمانیہ میں حضرت مولانا سعید احمد نقشبندیؒ اور مولانا گل رحمان درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ آپ ان سے استفادہ کرنے جایا کرتے تھے۔ 3سال آپ جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو میں بھی زیرتعلیم رہے بعدازاں آپ تعلیم کے شوق میں راولپنڈی عارف اللہ شاہ صاحب کے ہاں تشریف لے گئے مگر جلد ہی واپس لاہور لوٹ آئے۔ محلہ گول پہلوان دہلی گیٹ کی مسجد میں امام مقرر ہوئے یہ ان کی امامت کا پہلا سال تھا۔ قدرت نے آپ کو لحنِ داؤدی عطا کی تلاوت کرتے یا اذان دیتے تو سننے والے ادب و احترام سے سننے پر مجبور ہو جایا کرتے۔ آپ کی آواز سوز و گداز کے اعتراف میں ریڈیو پاکستان لاہور اسٹیشن نے پہلی بار جب اذان نشر کی تو یہ اعزاز آپ کے حصے میں آیا۔
ریڈیو پاکستان لاہور اسٹیشن میں اذان دیتے ہوئے سن کر آپ کو بادشاہی مسجد لاہور میں نائب امام کے فرائض سونپ دیئے گئے۔ بادشاہی مسجد لاہور میں ایسی خوش الحانی سے اذان دیتے اور نماز میں قرآن پڑھتے کہ دور دراز سے لوگ نماز میں قرآن سننے کے لیے پہنچتے۔ موسیٰ خان نے بادشاہی مسجد میں عید کی نماز ادا کی اور اپنے لوگوں کو بھجوایا کہ جن قاری صاحب نے نماز عید پڑھائی ان کو لے کر آئیں جب قاری صاحب گورنر صاحب کے پاس پہنچے تو گورنر نے 400 روپے بطور انعام دیا کہ آج آپ نے نماز عید میں قرآن بہت خوبصورت پڑھا۔ 1969ء کے آخری ہفتے میں آپ کی شادی ہوئی۔ شادی کے بعد قاری صاحب جوگی محلہ اندرون بھاٹی گیٹ میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دینے لگے اور جوگی محلہ کی مسجد کی بھی تعمیر کروائی۔
1976ء میں جوگی محلہ مسجد سے آپ سیالکوٹ جامع مسجد شہاب پورہ مدرس بن کر چلے گئے۔ دو یا اڑھائی سال تک وہاں دینی و ملی فریضہ انجام دیتے رہے اسی دوران مولانا سعید نقشبندی مرحومؒ نے حکم دیا کہ آپ جمعتہ المبارک پڑھانے شادمان جیل کالونی کی مسجد لاہور آیا کریں، 1978ء کے ابتدائی ہفتوں میں قاری صاحب نے ہمراہ فیملی شادمان جیل کالونی والی مسجد میں آن ڈیرہ لگایا ۔
جیل کالونی کی اس مسجد کو عظیم الشان جامع مسجد اور ایک بڑا ادارہ بنایا جائے، جہاں سینکڑوں عبدالفتاح تیار ہو سکیں۔ حاجی چنن دین اور ان کے رفقاء نے بنیادوں کے لیے رضامندی ظاہر کی قاری محمد امیر عالم نقشبندی نے اپنے مرشد سے رابطہ کیا۔ حضرت خواجہ محمد صادق المعروف جناب گلہار شریف والے مسجدیں تعمیر کروانے میں نمایاں تھے۔ آپ نے قاری صاحب کو نقشہ بتلایا کہ کس طرح اس کی بنیادیں رکھی جائیں اور کس طرح مسجد کی تعمیر ہونی چاہئے۔ اس دوران آپ کی ملاقات حاجی محمد طفیل سے ہوئی تو انہوں نے عمارت کھڑی کرنے کا وعدہ کیا۔ یاد رہے کہ بنیادوں کی کھدائی اور بنوائی میں مزدوروں کے ساتھ ساتھ جیل کالونی کے نوجوانوں نے بھرپور ساتھ نبھایا۔قاری صاحب مرحوم نے نہ صرف مخصوص دینی خدمات کے لیے لوگوں کی تربیت کی بلکہ ہر شعبہ زندگی کے لوگوں کو پڑھنے کے لیے ہر طرح اور ہر سطح پر تعاون کیا۔ آپ اصلاحی، رفاعی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ تحریک ختم نبوت ، تحریک نظام مصطفی، تحریک تحفظ ناموس رسالت میں آپ نے بھرپور تعاون کیا۔ جہادِ افغانستان، جہادِ کشمیر کے خاموش کارکن تھے۔ جانی و مالی تعاون میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔
شیخ خواجہ محمد صادقؒ المعروف جناب گلہار شریف والے آپ کے وصال سے قبل قاری صاحبؒ کوٹلی گلہار شریف تشریف لے گئے تو شیخ کے حکم کے مطابق 15 روز تک امامت کے فرائض سرانجام دیتے رہے اور آپ کی روحانی تربیت ہوتی رہی آپ فرماتے اگر ادارے کی ذمہ داری نہ ہو تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مرشد کے پاس چلا جاؤں اور ان کی خدمت میں لگ جاؤں۔ آپ کو دوبار حج بیت اللہ اور چار بار عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ جب بھی اپنے سے بہتر بندہ ملا اس کو خطابت کا موقع فراہم کیا۔ ملک کی بے شمار مقتدر اور دینی و علمی شخصیات ادارہ ہذا کا دورہ کر چکی ہیں۔
آپ 64 سال کی عمر میں ایک موذی بیماری کا شکار ہوئے۔ آپ کے بڑے صاحبزادے حافظ محمد مسعود عالم برطانیہ سے آپ کی خدمت کے لیے آئے حافظ صاحب نے والد محترم سے پوچھا کہ واپسی کی سیٹ کب کی کرواؤں تو آپ نے حکم دیا جس ادارے میں آپ کام کرتے ہیں وہ آپ کے ساتھ بڑے مخلص ہیں اور (وفاداری، شرط استواری) آپ کو انہی سے مشورہ لینا چاہئے۔ بالاآخر عیدالضحیٰ کے تیسرے روز 12 ذی الحج 19 نومبر بروز جمعتہ المبارک صبح 10 بج کر 20 منٹ پر خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون آپ کا جنازہ 20 نومبر کو حاجی پیر صاحب کے بڑے صاحبزادے جناب عبدالسلام صاحب نے پڑھایا۔ یوں آپ کے فرمان کے مطابق 21 نومبر کو ہر کام سے بخیروخوبی انجام پذیر ہو کر فارغ ہوئے۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی آخری آرام گاہ مسجد کی بغل میں ادارہ ہذا میں ہی بنائی گئی جس کا آپ نے 30 سال قبل ہی بتا دیا تھا کہ یہ جگہ میں نے اپنی قبر کے لیے مختص کی ہے۔
قاری محمد امیر عالمی نقشبندیؒ کا زندگی بھر معمول رہا کہ آپ ہر جمعہ کو بعد نماز عصر درودشریف پڑھا کرتے اور روزانہ نماز پنجگانہ کے ساتھ ساتھ قرآن کی تلاوت اور ادِفتحیہ، دلائل الخیرات اور درود مستغاث شریف کا وظیفہ کرتے۔ حضرت پیر ڈاکٹر سید مظاہر اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھوی (امیر حلقہ اشرفیہ پاکستان) نے 1993ء کو قاری صاحبؒ کو تاجِ اشرفی پہنایا۔
قاری محمد امیر عالم نقشبندیؒ کے چھوٹے صاحبزادے محمد فاروق عالم، جنہوں نے حال ہی میں اپنا نام تبدیل کر کے محمد انس عالم رکھا ہے، حضرت خواجہ محمد صادقؒ گلہار شریف والوں سے بیعت ہیں۔ یوں محمد انس عالم کا حضرت خواجہ محمد صادقؒ کے آخری مریدوں میں شمار ہوتا ہے۔ حضرت خواجہ محمد صادقؒ نے محمد انس عالم کو فرمایا قاری صاحب کی صحت ٹھیک نہیں رہتی آپ نے ادارے کو اچھی طرح سنبھالنا اور چلانا ہے۔ آپ کے فرمان کے مطابق قاری محمد امیر عالم نقشبندیؒ نے اپنی زندگی میں ہی وصیت میں لکھوا دیا اور ادارہ ہذا کے صدر کو خود ہی کہہ دیا تھا کہ محمد انس عالم انشاء اللہ ادارہ ہذا کے معاملات کو چلائے گا اس کا ساتھ دیجئے گا۔