محکمہ اینٹی کرپشن میں بھرتی کے عمل کی منسوخی
سپریم کورٹ نے محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب میں بھرتیوں کے عمل کو غیر شفاف قرار دیتے ہوئے منسوخ کردیا ہے، جبکہ محکمے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر خواتین کے کوٹے کو بھرتی کے لئے زیرغور نہ لانے پر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ مسٹر جسٹس عظمت سعید اور مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بنچ نے استفسار کیا کہ خواتین کو ان کے کوٹے کے مطابق ملازمت نہ دینے کا کوئی قانون موجود ہے۔ محکمہ اینٹی کرپشن کے وکیل نے بھرتی کے عمل میں خواتین کے کوٹے کو زیر غور نہ لانے کی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے یقین دلایا کہ خواتین کی بھرتی کو یقینی بنانے کے لئے اخبارات میں دوبارہ اشتہار دیا جائے گا۔ اینٹی کرپشن پنجاب حکومت کا ایک اہم محکمہ ہے ، جہاں سرکاری اداروں میں ہونے والی کرپشن کو روکنے کا کام ہوتا ہے۔ مختلف محکموں میں سرکاری ملازمین کے خلاف بدعنوانی اور قوانین کی خلاف ورزی پر انکوائریاں ہوتی ہیں۔ ہر سال بڑی تعداد میں کرپشن کی نشاندہی کرنے کی درخواستوں کا نوٹس لیا جاتا ہے۔ جن ملازمین کے خلاف محکمانہ تحقیقات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ان کے خلاف اینٹی کرپشن پنجاب کے افسران انکوائری کرتے ہیں۔اینٹی کرپشن کا محکمہ اپنے امیج اور تاثر کے حوالے سے دلچسپ تبصروں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ ازراہ مذاق کہا جاتا ہے کہ جو محکمہ کرپشن کے انسداد کے لئے قائم ہے، کرپشن اور ہیرا پھیری اس محکمے میں بھی پائی جاتی ہے اسی وجہ سے بڑی تعداد میں فائلیں سرد خانے میں پڑی رہتی ہیں۔مسٹر جسٹس عظمت سعید نے دورانِ سماعت یہ کہا کہ اس محکمے کو لاہور میں محکمہ رشوت ستانی کہا جاتا ہے۔ بظاہر اس محکمے میں اینٹی کرپشن کا کوئی کام دکھائی نہیں دیتا۔ مسٹر جسٹس عظمت سعید کے ریمارکس حسبِ حال دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں تک اس محکمے میں بھرتیوں کا تعلق ہے تو اس عمل میں شفافیت کا نہ ہونا افسوسناک ہے۔خصوصاً خواتین کو ان کے کوٹے کے مطابق بھرتی کرنے سے گریز قانون کے خلاف ہے، جس کی نشاندہی کرتے ہوئے دوبارہ بھرتی کا حکم دیا گیا ہے۔ بہتر ہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن اپنے معاملات کو شفاف بنانے پر زیادہ توجہ دے اور خواتین کو ان کے کوٹے کے مطابق بھرتی کیا جائے۔