شہنشاہ اکبر کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 53
علاقہ کے مقتدر عالم حضرت مولوی عبد اللہ لدڑوی عرف مولوی صاحب آپ کا ذکر بڑی تعظیم اور ادب سے کرتے تھے۔ انہوں نے کئی بار اپنے احباب کو بتایا کہ حضرت بحر العلوم قطب زمانہ اور کامل ولی اللہ تھے اور ان کی توجہ میں بڑی تاثیر تھی۔ مولوی صاحب موصوف آپ کا بڑا احترام کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میرا سرکار بحر العلوم کا احترام کرنا دو وجہ سے ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ آپ میدان معرفت کے شہسوار اور بلند پایہ ولی ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میرے آباؤاجداد سچیاری نوشاہی خاندان کے مرید تھے اور حضرت پیر محمد سچیار نوشاہی قدس سرہ، سرکار بحر العلومؒ کے مورث اعلٰی حضرت نوشہ گنج بخشؒ کے خلیفہ تھے۔
قسط نمبر 52 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت مولوی محمد عبد اللہ لدڑوی نے موضع گوند تحصیل کوٹلی کی مسجد میں ایک مجلس کے سامنے یہ بھی ارشاد کیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد میں کئی بار آپ کی زیارت سے بیداری میں مشرف ہوا ہوں۔ آپ مجھ پر بڑی مہربانی فرماتے ہیں۔ آپ کے ہم عصر مشہور بزرگ حضرت میاں محمد بخش مصنف سیف الملوک ،میاں محمد اسماعیل ،میاں محمد یوسف اور سائیں کالا مجذوب کو بھی آپ کی علوالمرتبی کا اعتراف تھا۔ ان بزرگوں نے بھی کئی بار آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اکتساب فیض کا ہے۔ موضع ملوٹ کے سائیں فضل مجذوب نے بھی آپ سے بہرہ باطنی حاصل کیا تھا۔
سرکار بحر العلوم کی وفات
سید الکاملین، امام السالکین، غواث بحر ہویت، مظہر انوار صمدیت حضرت سید سرکار بحر العلوم قدس سرہ نے مورخہ 3 ذی الحجہ 1340ھ بروز ہفتہ 29 جولائی 1922 بوقت عشاء تین بار اللہ اکبر کہہ کر واصل باللہ ہوئے۔
حضرت سید سرکار بحر العلوم قدس سرہ کا مزار اقدس گورستان نوشاہیہ چک سواری شریف میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔
کشف و کرامات
حضرت سرکار بحر العلوم قدس سرہ، سے ہزاروں کرامات کا صدور ہوا ہے جو آج تک زبان زد خاص و عام ہیں اور تادم تحریر ہذا ایسے کئی افراد زندہ و سلامت ہیں جو آپ کے کشف و کرامات کے عینی شاہد ہیں۔
حضرت سرکار بحر العلوم قدس سرہ کی اولاد
حضرت سید سرکار بحر العلوم قدس سرہ کے دو فرزند اور تین صاحبزادیاں تھیں۔ اوّل سید چراغ محمد شاہ، دوم سید خوشی محمد عرف معصوم شاہ، آپ کی صاحزادیوں کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ اوّل سیدہ سلطان بیگم، دوم سیدہ نور بیگم، سوم سیدہ کرم بیگم۔
حضرت بحر العلوم کی تینوں صاحبزادیوں نے قرآن مجید اپنی والدہ ماجدہ سے حفظ کیا تھا اور انہیں سے مسائل فقہ کی بعض کتابیں بھی پڑھی تھیں۔ ان میں سے حضرت حافظہ سیدہ کرم بیگم سرکار بحر العلوم کی وفات سے تین ماہ قبل بتاریخ 17 شعبان بروز منگل 1339ھ میں انتقال فرما گئی تھیں اور دوسری صاحبزادیوں کا انتقال آپ کی وفات کے بعد ہوا تھا۔ آپ کی دو صاحبزادیوں کے مزارات گورستان نوشاہیہ چک سواری شریف میں حضرت بحر العلومؒ کے مزار پاک کی غربی جانب ہیں۔ آپ کی تیسری صاحبزادی کا مزار رنمل شریف میں ہے۔
قطب الاقطاب سید چراغ محمد شاہ قدس سرہؒ
حضرت سید بحر العلوم کے فرزند اکبر،قطب المشائخ سیدابوالکمال برق نوشاہی اور عالمی مبلغ اسلام پیر سید معروف حسین شاہ عارف قادری نوشاہی کے والد ماجد، قطب الاقطاب حضرت سید چراغ محمد شاہ نوشاہیؒ مورخہ 10 ربیع الاول 1296ء بروز بدھ صبح صادق کے وقت رنمل شریف ضلع گجرات میں پیدا ہوئے ۔چراغ محمد آپ کا تاریخی نام ہے جو حضور بحرا لعلومؒ نے تجویز کیا تھا۔
تعلیم و تربیت اور بیعت
قطب الاقطاب حضرت سید چراغ محمد شاہ قدس سرہ نے قرآن مجید اپنی والدہ ماجدہ سے پڑھا اور قرآن مجید ختم کرنے کے بعد چند کتابیں بھی انہی سے پڑھیں۔ 1304 ھ میں جب آپ اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ چک سواری شریف میں آئے تو وہاں سرکار بحر العلومؒ سے فقہ اور طب کی کتابیں پڑھیں اور مورخہ 9 ذی الحجہ 1313 ھ میں حلقہ ارادت میں داخل ہو کر خرقہ خلافت حاصل کیا۔
شادی
رابعہ دوراں حضرت سید ام البرکات عنایت فاطمہ دختر نیک اختر عارف باللہ حضرت محمد عبد اللہ ہاشمی اسدی ساکن لدڑ ضلع میرپور آپ کے حلقہ زوجیت میں تھیں۔
حضرت قطب الاقطاب کے معمولات اور خصائص
حضرت سید چراغ محمد شاہ بڑے عابد زاہد متقی تھے۔ نماز پنجگانہ کے علاوہ تہجد، اوابین، اشراق اور چاشت کے نوافل بھی پابندی سے ادا کرتے تھے۔ آپ نماز پنجگانہ میں امامت کے فرائض خود سرانجام دیتے تھے۔ شروع شروع میں آپ روزانہ بیس پارے تلاوت کیا کرتے تھے لیکن آخر عمر میں دس پارے یومیہ تلاوت کرنا آپ کا معمول تھا۔ تلاوت قرآن مجید کے علاوہ درود شریف غوثیہ، درود مستغاث، مسبعات عشر، ذکر کلمہ شریف، سورہ تغابن، سورہ ملک، سورہ مزمل اور سورہ یاسین بھی آپ کے محبوب وظائف تھے۔
آپ ہمیشہ صبح کی نماز کے بعد تلاوت قرآن مجید فرماتے اور تلاوت سے فارغ ہو کر طلبا اور طالبات کو سبق پڑھاتے تھے۔ علاوہ ازیں، اشراق اور ظہر کے بعد تلاوت کیا کرتے تھے۔عصر کے بعد مسبعات عشر اور دوھرے وظائف شام تک پڑھتے رہتے تھے۔ عشاء کی نماز کے بعد درود مستغاث اور دیگر سورتیں پڑھتے تھے۔ آدھی رات کے بعد نماز تہجد بارہ رکعت ادا کرتے تھے ۔پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد بارہ دفعہ سورۃ اخلاص پڑھتے تھے اور اس کے بعد ہر رکعت میں ایک بار کم کرتے جاتے تھے یہاں کہ بارہویں رکعت میں صرف ایک بار سورہ اخلاص پڑھتے تھے۔ تہجد کے بعد ذکر کلمہ شریف میں مشغول ہو جاتے تھے۔
مہمان نوازی
آپ بے حد مسکین نواز اور غریب پرور تھے۔ غربا اور مسافروں کے ساتھ بڑی نرمی سے پیش آتے تھے۔ مہمانوں کے آگے اپنے ہاتھ سے کھانا رکھتے تھے۔ آپ اپنے گھر کا کام کاج کرنے میں کوئی عار نہ سمجھتے تھے اپنی زمین کی کاشت خود کرتے تھے اور اپنے مویشیوں کو اپنے ہاتھ سے چارہ ڈالتے تھے۔ (جاری ہے)