فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 52

فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 52
فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 52

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ دفتر سریلی آوازوں اور نقرئی قہقہوں سے گونجنے لگا۔ کئی فلم ایکٹریسں بیک وقت دفتر میں داخل ہو گئی تھیں اور عورتوں کی عادت کے مطابق سب نے ایک ساتھ ہی بولنا شروع کر دیا تھا۔ فلم سے وابستہ لوگوں کو ہم نے ’’فلم لائٹ ‘‘ کے دفتر میں بھی آتے جاتے دیکھا تھا مگر یہاں رونق کچھ زیادہ تھی۔ بعد میں ہمیں پتا چلا کہ اس دفتر میں صنف نازک سے تعلق رکھنے والی فن کارائیں عموماً آتی رہتی تھیں۔ ایک تو اس لئے کہ انہیں پبلسٹی مل جاتی تھی۔ ان کی تصویریں اور خبریں شائع ہو جاتی تھیں۔ دوسرے یہ کہ اس وقت شباب صاحب ایک فلم بنانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ تیسری بات یہ تھی کہ یہاں سب کی خاطر مدارات کچھ زیادہ ہوتی تھی۔ ادھر ’’فلم لائٹ‘‘ کے دفتر میں عیسیٰ خان ہر ایک کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈائریکٹر کے دفتر میں لالہ وزیر محمد کے الفاظ میں ’’پرستان‘‘ کا نظارہ دیکھنے کو ملتا تھا۔ جب خواتین نے بہت زیادہ باتیں بنانی شروع کر دیں اور شباب صاحب نے ان کی باتوں پر ہنسنا شروع کر دیا تو چوہدری صاحب بھی نہ رہ سکے اور اپنے کمرے سے اٹھ کر چلے آئے۔

قسط نمبر 51 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان کی بھی ہر ایک سے بے تکلفی تھی اور وہ بعض ایسی باتیں بھی کہہ جاتے تھے جو کوئی اور ان لڑکیوں سے کھلے عام نہیں کہہ سکتا تھا۔ مگر لڑکیوں میں چوہدری صاحب کی دلچسپی محض زبانی ہنسی مذاق تک ہی محدود تھی۔
سبھی لوگ بے تکلفی سے باتوں میں مصروف ہو گئے مگر ہم لالہ وزیر محمد کے پہلو میں خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی دانست میں سرگوشی میں ہم سے پوچھا ’’تم کیوں خاموش بیٹھے ہو۔ شرمانے کی کیا بات ہے؟‘‘
ان کی گونج دار آواز نے یہ سرگوشی سب کے کانوں تک پہنچادی اور سب لوگ ہماری طرف متوجہ ہو گئے۔
شباب صاحب نے ہر ایک سے ہمارا تعارف کرایا۔ پھر لالہ وزیر محمد نے حسب عادت ہماری تعریف میں کچھ کلمات کہے جن میں ٹیپ کا بند یہ تھا کہ یہ بہت شریف لڑکا ہے اس لئے لڑکیوں کے سامنے ذرا ذرا شرماتا ہے۔ سب لڑکیوں نے دلچسپی سے ہمیں دیکھنا شروع کر دیا۔ اتنی دیر میں چائے آگئی۔ ہم چائے پی کر اور مصروفیت کا بہانہ کر کے چلے آئے۔ لیکن اس کے بعد شباب صاحب سے تعلقات بڑھتے گئے۔ ان کے اصرار پر ہم نے ڈائریکٹر میں لکھنا بھی شروع کر دیا۔ ہم نے تو اپنی دانست میں محض دوستی میں مضامین لکھے تھے مگر جب شباب صاحب نے پہلے مضمون کی اشاعت پر پندرہ روپے کا چیک ہمیں دیا تو ہم حیران رہ گئے کیونکہ پندرہ روپے اس زمانے میں بہت معاوضہ تھا۔ بعد میں آنا جانا زیادہ ہو گیا تو وہاں ادیبوں اور شاعروں سے بھی ملاقاتیں ہونے لگیں۔
اس طرح مزید دلچسپی پیدا ہوگئی۔ شباب صاحب سے بے تکلفی بڑھی تو دفتری اوقات کے بعد بھی ہم ملنے لگے۔ اس کے بعد تو ایسی دوستی ہوئی کہ گھریلو تعلقات میں بدل گئی اور ساری زندگی قائم رہی۔ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ شباب صاحب اس وقت بھی شادی شدہ تھے۔ ہماری کافی عرصے بعد شادی ہوئی اور اس طرح گھریلو تعلقات اور زیادہ گہرے ہوگئے۔ شباب صاحب سے دوستی اور بے تکلفی اتنی بڑھی کہ راز و نیاز شروع ہو گئے۔ شباب صاحب عموماً اپنے دل کی بات کسی سے نہیں کہتے تھے نہ کسی کو ہم راز بناتے تھے۔ مگر ہمارے معاملے میںیہ بندش بھی نہ رہی اور رفتہ رفتہ ایسا وقت بھی آیا جب ان کا اور ہمارا کو ئی راز ایک دوسرے سے پوشیدہ نہیں رہا۔
ان کے دفتر میں ہم نے کسی ہیروئن کو تو نہیں دیکھا مگر دوسری ایکٹریس عموماً قدم رنجہ فرمایا کرتی تھیں۔ زینت‘ آشاپوسلے‘ سلمیٰ ممتاز وغیرہ سے اکثر وہاں ملاقات ہوا کرتی تھی مگر ہم کسی سے بے تکلف نہیں تھے۔
ایک دن ہمیں پھر لالہ وزیر محمد کا ٹیلی فون موصول ہوا اور انہوں نے ہمیں بلا تاخیر ڈائریکٹر کے دفتر میں پہنچنے کا حکم دیا۔ لالہ جواب میں عذر یا معذرت سننے کے قائل نہیں تھے اس لئے کچھ کہنا لا حاصل تھا۔
تھوڑی دیر بعد ہم شباب صاحب کے دفتر میں پہنچے تو سارا کمرا نازنینوں سے بھرا ہوا تھا اور خوب قہقے اڑ رہے تھے۔ یہ سب چھوٹے موٹے کردار کرنے والی لڑکیاں تھیں۔ لالہ وزیر محمد اپنے مخصوص صوفے پر تشریف فرما تھے۔ انہوں نے ہمیں دیکھتے ہی ہاتھ تھام کر اپنے برابر بٹھا لیا۔ ایک لمحے کے لئے خاموشی چھا گئی۔ اور سب نے ہمیں دیکھنا شروع کر دیا۔ ہمیں کچھ بے چینی سی ہونے لگی۔ سب کی نظریں ہم پر لگی ہوئی تھیں۔ شباب صاحب کے چہرے پر بھی شرارت آمیز مسکراہٹ تھی۔ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اس وقت ایک سازش کے تحت ہمیں بلایا گیا ہے۔ شباب صاحب نے فون پر چائے کا آرڈر دیا اور دوبارہ لطیفہ بازی اور گپ شپ کا دور چلنے لگا۔ محفل میں موجود بیشتر لڑکیوں سے ہم مانوس نہیں تھے اس لئے خاموش رہے۔
لالہ وزیر محمد نے اپنی گونج دار آواز میں کہا ’’کڑیو۔ آفاقی میرا بیٹا ہے۔ بہت اچھا جرنلسٹ اور رائٹر ہے مگر یہ شرمیلا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم آج اس کی شرم دور کر دو۔ ‘‘
لالہ وزیر محمد پشاوری لب ولہجے میں اردو بولتے تھے اور اکثر پشتو الفاظ بھی استعمال کر ڈالتے تھے۔
لڑکیوں نے جواب میں ہنسنا شروع کر دیا۔
لالہ نے دو لڑکیوں کی طرف دیکھا اور کہا ’’اتنی دور کیوں بیٹھی ہو۔ ادھر آکر آفاقی کے پاس بیٹھو۔ ‘‘
لڑکیوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور بے تکلفی سے ہمارے برابر آکر بیٹھ گئیں۔ ہم کچھ اور سمٹ گئے۔ اتنی دیر میں چوہدری فضل حق صاحب بھی کمرے میں آگئے۔ وہ شباب صاحب کو ’’حافظ جی ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ آتے ہی انہوں نے کہا۔
’’حافظ جی۔ آج تو بڑی رونق لگی ہوئی ہے۔ ‘‘
لالہ بولے ’’چوہدری صاحب۔۔۔۔۔۔آج آفاقی کی شرم دور کرنی ہے۔‘‘
چوہدری صاحب بھی آکر ایک صوفے کے کونے پر ٹک گئے اور بولے ’’آفاقی لڑکی تو نہیں ہیں جو لڑکیوں سے شرمائیں گے۔‘‘
یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہو رہا تھا۔ مگر اس طرح سب کی توجہ کا مرکز بننے کی وجہ سے ہمیں کچھ عجیب سالگ رہا تھا۔
’’آفاقی۔ ان لڑکیوں سے باتیں کرو ‘‘ لالہ نے حکم دیا۔
ہم نے کہا ’’کیا باتیں کریں؟‘‘
بولے ’’تم تو بہت باتونی ہو۔ کچھ بھی باتیں کرو لطیفے سناؤ۔‘‘
ہم پھر بھی خاموش رہے۔ دراصل یہ سب کچھ ہمیں اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
لالہ نے لڑکیوں سے کہا ’’کڑیو۔ تم ادھر آکر آفاقی کے پاس بیٹھو۔‘‘
لڑکیوں نے ذرا تامل کیا۔ انہیں ہمارے چہرے پر ناراضگی کے آثار نظر آنے لگے تھے مگر لالہ کا حکم کوئی ٹال نہیں سکتا تھا۔ ایک صاحب زادی اٹھ کر کھڑی ہوئیں اور ہمارے پاس آکر رک گئیں۔ شاید اس لئے کہ صوفے پر کسی اور کے بیٹھنے کی گنجائش نہیں تھی۔
لالہ نے کہا ’’آفاقی کی گود میں بیٹھ جاؤ۔ ‘‘
وہ لڑکی سچ مچ ہماری گود میں بیٹھنے لگی تو ہم غصے میں ایک دم کھڑے ہو گئے۔
’’لالہ۔ کیا تماشا بنانے کے لئے ہمیں بلایا تھا؟‘‘ ہم نے غصہ بھری آواز میں کہا تو سب نے چونک کر ہماری طرف دیکھا۔ لڑکی جہاں کھڑی تھی وہیں کھڑی رہ گئی۔
شباب صاحب نے کہا ’’آفاقی صاحب۔ یہ تو ہنسی دلگی کی باتیں ہیں۔‘‘
ہم نے کہا ’’ہمیں ایسا مذاق بالکل پسند نہیں ہے۔ آئندہ ہم اس دفتر میں کبھی نہیں آئیں گے۔‘‘
یہ کہہ کر ہم تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔
کسی کو توقع نہیں تھی کہ صورتحال ایک دم ایسی ہو جائے گی۔ سب ہمیں پکارتے رہ گئے۔ ان میں لالہ وزیر محمد صدیقی کی آواز سب سے نمایاں تھی۔
’’آفاقی۔ رک جاؤ۔ واپس آجاؤ‘ اب ایسا مذاق نہیں ہو گا۔ ‘‘
مگر ہم غصے میں بھرے ہوئے دفتر سے باہر آگئے اور فٹ پاتھ پر پیدل چل پڑے۔ ہمیں سچ مچ غصہ آگیا تھا اور یہ سب کچھ ہمیں بہت توہین آمیز لگ رہا تھا۔ ہمارا دفتر زیادہ دور نہیں تھا اس لئے چند منٹ بعد ہم اپنے آفس میں پہنچ گئے۔ غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے غسل خانے میں جا کر منہ دھویا۔ ٹھنڈا پانی منگا کر پیا اور کام میں مصروف ہو گئے۔ کچھ دیر بعد شباب کیرانوی صاحب کاٹیلی فون آگیا۔
’’یار‘ تم تو مذاق کی بات پر برامان گئے۔‘‘
ہم نے کہا ’’شباب صاحب۔ آپ جانتے ہیں کہ ایسا مذاق مجھے پسند نہیں ہے اور یہ تو بھری محفل میں کسی کو ذلیل کرنے والی بات ہے۔‘‘
’’یقین کرو، یہ ساری اسکیم لالہ وزیر محمد کی تھی۔ اور مجھے بھی معلوم نہیں تھا کہ تم یوں برا مان جاؤ گے۔ اچھا، جو ہوا اسے بھول جاؤ۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہاری توہین ہوئی ہے تو معاف کر دو۔‘‘
ہم نے کہا ’’ٹھیک ہے۔ ‘‘
بولے ’’اس طرح نہیں۔ آج شام کو دفتر سے میرے پاس ضرور آنا۔ ورنہ میں سمجھوں گا کہ تم مجھ سے ناراض ہو۔‘‘
کچھ دیر بعد لالہ وزیر محمد صدیقی بنفس نفیس آگئے۔ سیڑھیاں چڑھ کر آئے تھے اس لئے سانس بے ترتیب تھا۔ ان کے ہمراہ کوئی ایک مصاحب قسم کا آدمی ضرور ہوتا تھا۔ اس وقت بھی ’’امروز‘‘ کے شعبہ سرکولیشن کے ایک صاحب ان کے ہمراہ تھے۔ ناراضگی اپنی جگہ مگر لالہ کا احترام اپنی جگہ تھا۔ آخر انہوں نے ہمیں بیٹا کہا تھا۔ ہم نے کھڑے ہو کر ان کی پذیرائی کی وہ تھوڑی دیر تک کرسی پر بیٹھ کر اپنا سانس ٹھیک کرتے رہے۔ پھر مصاحب کی طرف دیکھا جس نے ایک پان ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ پان کھا کر ان کے ہوش کچھ ٹھکانے آئے تو انہوں نے اپنی بھاری آواز میں کہا ’’بیٹا۔ کیا ناراض ہو گئے ہو؟‘‘
ہم نے کہا ’’لالہ۔ ویسے ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا۔‘‘
بولے ’’واقعی تم ٹھیک کہتے ہو۔ مجھے تمہارے مزاج کا صحیح اندازہ نہیں تھا۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے اپنی کمر میں بندھا ہوا پستول ہو لسٹر میں سے نکالا اور ہماری طرف بڑھا کر بولے ’’لو۔ تم اپنی شکایت دور کر لو۔‘‘
ہم نے پریشان ہو کر پستول کی طرف دیکھا۔
بولے ’’پٹھانوں میں یہی دستور ہے۔ اگر تمہاری بے عزتی ہوئی ہے تو اس کا بدلہ لے سکتے ہو۔ ‘‘
وہ بالکل سیریس تھے‘ ہم نے کہا ’’مگر لالہ‘ ہم نے تو کبھی پستول ہاتھ میں لے کر بھی نہیں دیکھا۔ گولی کیسے چلائیں گے ؟‘‘
وہ ہنسنے لگے۔ ان کی گونج دار ہنسی کی آواز سن کر برابر والے سرکولیشن کے شعبے سے لوگ چلے آئے۔ ’’ارے لالہ۔ آپ ! ہمیں بتایا بھی نہیں۔‘‘
’’یارا تم اپنے کمرے میں جاؤ۔ ابھی میرا اور آفاقی کا معاملہ ہے۔ یہ طے ہو گیا تو پھر تمہارے پاس آؤں گا۔ ‘‘
مختصر یہ کہ ہمارا دل صاف ہو گیا بلکہ دل میں شرمندہ بھی ہوئے کہ اس طرح غصے کا اظہار نہیں کرنا چاہیے تھا۔
لالہ بولے ’’تمہاری رگوں میں شریف خون ہے۔ ایسے ماحول میں تمہیں بلانا ہی نہیں چاہیے تھا۔‘‘
بعد میں جب ہم فلمی صنعت سے وابستہ ہو گئے تو لالہ کو خوشی بھی ہوئی مگر حیرت بھی تھی۔ کہا کرتے تھے کہ تم لڑکیوں کے ساتھ کیسے کام کرتے ہو گے ؟ ہم نے کہا ’’کسی دن خود آکر دیکھ لیجئے۔‘‘
لالہ فلموں کے اتنے زیادہ شوقین نہیں تھے مگر موسیقی کے رسیا تھے اور ثریا کے مداح تھے۔ کہا کرتے تھے ’’یارا، اس کی آواز میں جو خاص بات ہے وہ کسی بھی گانے والی کی آواز میں نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے ثریا کے بہت سے ریکارڈ اکٹھے کر رکھے تھے۔
ہم نے لالہ کے لئے چائے منگائی۔ کہنے لگے ’’دیکھو بیٹا۔ جو ہونا تھا‘ وہ تو ہو گیا مگر اب تمہیں میرے پاس پشاور آنا پڑے گا۔ ‘‘
ہم نے کہا ’’لالہ اتنے سے قصور کی اتنی بڑی سزا؟‘‘
ہنسنے لگے‘ کہا ’’نہیں۔ بس مجھ سے وعدہ کرو اور دیکھو‘ چھ سات دن کی چھٹی لے کر آنا۔‘‘
’’اتنے دن تک پشاور میں کیاکروں گا ؟‘‘
’’تمہیں مری اور نتھیا گلی بھیجیں گے۔‘‘
ہم پشاور گئے، لالہ نے قصہ خوانی بازار میں ایک مکان خاص طور پر ہمارے لئے کرائے پر حاصل کیا تھا۔ ہم کو ایسے تنگ اور گنجان علاقوں میں رہنے کی عادت نہیں تھی۔ رات کو لالہ خود ہمیں گھر تک چھوڑنے آئے اور اپنے ایک بیٹے کو ہماری رفاقت کے لئے گھر میں چھوڑ گئے۔

جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)