یمن میں جنگ شروع ہونے کے بعد اب تک کی سب سے شرمناک خبر آگئی، ہزاروں نوعمر لڑکیوں کو کس کام پر مجبور کردیا گیا؟ جان کر ہر شخص کانپ اٹھے

یمن میں جنگ شروع ہونے کے بعد اب تک کی سب سے شرمناک خبر آگئی، ہزاروں نوعمر ...
یمن میں جنگ شروع ہونے کے بعد اب تک کی سب سے شرمناک خبر آگئی، ہزاروں نوعمر لڑکیوں کو کس کام پر مجبور کردیا گیا؟ جان کر ہر شخص کانپ اٹھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

صنعاء(مانیٹرنگ ڈیسک) یمن کے مظلوم عوام کی بدقسمتی دیکھئے کہ ایک جانب غیر ملکی افواج ان کے ملک پر یلغار کئے ہوئے ہیں تو دوسری جانب مقامی باغیوں نے ان کی بیٹیوں کو لوٹ کا مال سمجھ کر پامال کرنا شروع کردیا ہے۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق یمنی حکام کا کہنا ہے کہ حوثی باغی اپنے زیر قبضہ علاقوں سے نوعمر لڑکیوں کو اغوا کرتے ہیں اور پھر زبردستی ان کی شادیاں باغی کمانڈروں اور جنگجوﺅں سے کروادی جاتی ہیں۔ یمنی حکام کے مطابق شدت پسندوں نے 14ہزار سے زائد افراد کو قید کررکھا ہے۔جو والدین اپنی کم عمر لڑکیوں کی شدت پسندوں سے شادی پر تیار نہیں ہوتے انہیں قید، تشدد اور موت کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ان کی جائیدادوں پر بھی قبضہ کرلیا جاتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں میں باغیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اشتعال کے بعد انہوں نے نوعمر لڑکیوں کو بزور طاقت اغوا کرنا شروع کردیا ہے۔
یمنی قبائل میں اپنے رسوم و روایات سے ہٹ کر شادی کرنے کا رواج نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگ برضا و رغبت حوثی باغیوں کے ساتھ اپنی بیٹیوں کی شادیوں پر تیار نہیں ہوتے، تاہم مزاحمت کرنے والے خاندانوں کوبدترین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

داعش کے شدت پسندوں نے تکریت میں ہلہ بولتے ہوئے پولیس کرنل اور 14 اہلکاروں سمیت 31 افراد کو ہلاک کر دیا
مقامی میڈیا کے مطابق بادان صوبے کے گاﺅں ماداک سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو اس کے گھر اور زمین پر قبضے کی دھمکی دے کر اس کی 16 سالہ لڑکی کی شادی ایک حوثی کمانڈر سے کروائی گئی۔ اسی صوبے کے قبضے حبیش میں ایک تاجر کو اغوا کرکے اس پر تشدد کیا گیاتاکہ وہ اپنی بیٹی کی شادی ایک مقامی باغی لیڈر سے کروانے پر تیار ہوجائے۔ اسی طرح الردما کے علاقے سے بھی ایک لڑکی کو اغوا کرکے زبردستی شادی کروانے کی خبر سامنے آئی ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق اس علاقے میں 18 نوعمر لڑکیوں کی باغیوں سے زبردستی شادی کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔ مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ دراصل یہ تعداد سینکڑوں میں ہوسکتی ہے کیونکہ اکثروالدین اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا ذکر کرنے سے ڈرتے ہیں۔

مزید :

عرب دنیا -