عدل اور گورننس: کون کس کو ٹھیک کرے ؟
سابق وزیر اعظم نوازشریف ملک میں عدل کا نظام ٹھیک کرنے کے عزم کا اظہار کررہے ہیں۔ نوازشریف کونظام عدل ٹھیک کرنے کا خیال اس وقت آیا ، جب ان کے خلاف فیصلہ آیا، گزشتہ چار سال انہیں عدالتوں میں دھکے کھاتے شہری یاد نہیں آئے ۔ نوازشریف کی عظیم ناکامیوں سے پہلے ان کی چند کامیابیوں کا ذکر ضروری ہے۔ان کی بہت بڑی کامیابی ملک میں اور بالخصوص کراچی میں دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔سیاسی تعصب کی عینک سے دیکھنے والوں کو یہ بات ناگوار گزرے گی ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے نامعلوم جرائم پیشہ افراد کے خلاف پہلا آپریشن نوازشریف نے ہی 1992ء میں شروع کیا تھا ۔
اسی طرح 1997ء میں حکومت میں آنے کے بعد جب حکیم سعید کا قتل ہوا تو ایم کیو ایم کو 72گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تھاحالانکہ وہ سندھ کی مخلوط حکومت میں شامل تھی۔ایم کیوایم نے قاتل پیش نہیں کئے تو انہیں حکومت سے علیحدہ کرکے گورنر راج نافذ کردیا اور آپریشن شروع ہوگیا۔لہٰذا،امن قائم کرنے کے ساتھ ان کی کمٹ منٹ پکی ہے کیونکہ بطور بزنس مین وہ جانتے ہیں ،بزنس امن میں ہی پھل پھول سکتا ہے ۔بزنس مین ہوناان کی ایک بڑی خوبی ہے، مگر کامیاب بزنس مین اپنے ملک کی معیشت کو ٹھیک نہیں کرسکا۔ بزنس کمیونٹی انہیں اپنا لیڈر سمجھتی ہے، مگرگزشتہ ادوار کے برعکس اس دور حکومت میں نوازشریف نے اپنی پاور بیس کا بازو مروڑ کر پالیسیاں منوائی ہیں ۔ٹیکس نیٹ نہیں بڑھایا بلکہ پہلے سے موجود ٹیکس دہندگان پر دباؤ ڈال کر اپنے ٹیکس اہداف پورے کئے۔
انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کے بجائے صنعتکاروں کو ہراساں کرنے والی پالیساں لائے ۔ ایکسپورٹ،انڈسٹری کی صحت کی علامت ہوتی ہے، مگر ان کے دور میں ایکسپورٹ بیس ارب ڈالر سے اوپر نہ جاسکی ، جبکہ امپورٹ پچاس ارب ڈالر تک پہنچ گئی ۔تیس ارب ڈالر کا یہ تجارتی خسارہ کسی حد تک اوورسیز پاکستانیوں کے بھیجے ہوئے زر مبادلہ سے پورا ہوتارہا ۔معیشت کی ناکامی کی ایک بڑی علامت بیرونی قرضہ بھی ہوتا ہے۔کشکول توڑنے کا دعویٰ کرنے والوں نے چار سال میں 35ارب ڈالر کا قرضہ لیا اوراپنے آخری سال میں تو ستر سال کی تاریخ کا ریکارڈ توڑ دیا اورایک سال میں دس ارب ڈالر کا قرضہ لیا،اس طرح ان کے دور میں بیرونی قرضہ 90ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ نوازشریف کی خوش قسمتی تھی کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی ہوئی، مگران کے سمدھی وزیرخزانہ نے اس کا فائد ہ بھی عوام تک نہیں پہنچنے دیا ۔مزے کی بات یہ ہے کہ ملکی معیشت کوتباہی سے دوچار کرنے والے وزیر خزانہ کے اپنے اثاثے مبینہ طور پرکئی گنا بڑھے ہیں ۔
سابق وزیر اعظم نوازشریف چودہ سال حکومت سے باہر رہے ،چھ سال جلاوطنی کی تنہائی میں بھی رہے ،توقع تھی کہ شائد گورننس کو بہتر بنانے بارے کافی سوچ بچار کی ہوگی ،مگرانہوں نے حکومت میں آکر کسی ادارے میں اصلاحات کا کوئی پروگرام شروع نہیں کیا ،سارا نظام پرانی ڈگر پر ہی چلتا رہا۔کئی وزارتوں اور اداروں کی بائیسویں گریڈکی اہم پوسٹیں خالی پڑی رہیں ،مگرانہیں تقرریوں کے لئے وقت نہیں ملا ۔انہوں نے اپنے چار سالہ دور میں کوئی وزیر خارجہ بھی مقررنہیں کیا ،ان کے پارٹی رہنما دفاع میں کہتے ہیں کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے بھی کوئی وزیر خارجہ نہیں بنایا تھا ،مگروہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بھٹوتو امورخارجہ کے ماہر تھے ،اس لئے وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا، مگر نوازشریف توفارن افیئرز بارے زیادہ نہیں جانتے تھے۔ مسلم لیگ ن سی پیک کو اپنی بہت بڑی کامیابی سمجھتی ہے ،مگربزنس کمیونٹی کو شکوہ ہے کہ اس منصوبے کے بارے انہیں کچھ نہیں بتایا گیا ،صنعت کاروں کے اندر تو اس بارے بہت خدشات ہیں ،مگر نواز حکومت نے انہیں اعتماد میں لینا مناسب نہیں سمجھا۔
گورننس کی یہ ساری خرابیاں کس نے ٹھیک کرنا ہیں؟ظاہر ہے ،جس کو آئین اختیاردیتا ہے ۔اگر منتخب قیادت ناکام ہے توان پر کڑی تنقید ہونی چاہئے ،ان کی نااہلی کو ایکسپوز کیا جانا چاہئے اور اگر بالکل ناکارہ اور ٹھس قیادت تو آئینی مدت پوری ہونے کے بعد اٹھا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکیں، لیکن کام بہرحال انہوں ہی نے کرنا ہے۔بری کارکردگی کا بہانہ بنا کر کوئی غیر جمہوری ادارہ در اندازی کرے گا تو یہ نظام حکومت کبھی ٹھیک نہیں ہوگا ،جنیؤئن قیادت کبھی نہیں آسکے گی اور گورننس کا نظام یونہی لڑکھڑاتا اور ٹھوکریں کھاتا رہے گا۔
گورننس کی طرح ملک میں انصاف کی صورتحال بھی بہتر نہیں ۔لاکھوں لوگ انصاف کے لئے عدالتوں میں خوار ہورہے ہیں ، اپنے فیصلوں کے انتظار میں جیل کے اندرسسک رہے ہیں۔لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کی تمام عدالتیں جن میں سپریم کورٹ، شریعت کورٹ، تمام ہائی کورٹس اور ڈسٹرکٹ کورٹس شامل ہیں، ان میں ساڑھے 18 لاکھ سے زائدمقدمات زیر سماعت ہیں ۔ماہرین کے مطابق ایک مقدمے کا فیصلہ آنے میں اوسطاً 10 سے 15 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے ۔جنوری 2018 تک کے اعداد و شمار کے مطابق سپریم کورٹ میں اس وقت اڑتیس ہزار کیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے،جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں موجود کیسز کی تعداد ملک میں سب سے زیادہ، تقریباََڈیڑھ لاکھ ہے، دوسرے نمبر پر سندھ ہائی کورٹ ہے جہاں 94 ہزارکیسز ہیں۔
فیصلوں میں تاخیر کی بڑی وجہ ججوں کی کم تعداد بتائی جاتی ہے۔لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق اس وقت سپریم کورٹ اور ملک کی دیگر اعلی عدالتوں میں ججوں کی کل تعداد 146 ہے، جبکہ کل اسامیوں کی تعداد 167 ہے۔لاہور ہائی کورٹ اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں کل 60 اسامیاں ہیں ،لیکن وہاں 49 جج کام کر رہے ہیں۔ مقدمات کو تیزی سے نپٹانے کے لئے دوسرے ممالک میں ججوں کی تعداد آبادی کی نسبت پاکستان کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔پاکستان میں ہر دس لاکھ آبادی کے لئے 12 جج مختص ہیں ،جبکہ انڈیا میں یہ تعداد 18، برطانیہ میں 51 ، کینیڈا میں 75 اور امریکہ میں دس لاکھ کی آبادی کے لئے 107 ججز موجود ہیں۔ اگرعدالتوں میں موجود مقدمات کی تعداد کو ججوں پر تقسیم کیا جائے توپتہ چلتا ہے کہ دسمبر 2017 کے اختتام تک پنجاب میں تقریباً دس لاکھ کیسز تھے جن کے لئے صرف 938 ججز موجود ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایک جج ایک ہزار سے زیادہ کیسز کو سن رہا ہے ۔اس سے مقدمات کے بوجھ اور سماعت کے معیار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ججز کی کمی کے ساتھ ساتھ کئی روزمرہ کے مسائل تھوڑی سی توجہ سے حل ہوسکتے ہیں ۔
گورننس میں عدل قائم رکھا جائے اور عدل کی گورننس میں بہتر ی لائی جائے تو کسی کو کسی سے شکایت نہیں ہوگی۔ عدل زندگی کی بنیادی ضرورت ہے،عدل کے بغیر ملک انتشار کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔عدل کا سب سے بہترین رول ماڈل ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے منصف ہی ہوسکتے ہیں !