عمران خان کی کڑی نکتہ چینی کے جواب میں بلاول کے طنزیہ تیر و نشتر

عمران خان کی کڑی نکتہ چینی کے جواب میں بلاول کے طنزیہ تیر و نشتر
عمران خان کی کڑی نکتہ چینی کے جواب میں بلاول کے طنزیہ تیر و نشتر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے مابین ویسے تو لڑائی پرانی ہے، لیکن درمیان درمیان میں دلچسپ وقفے آجاتے ہیں۔ لاہور کے ناکام جلسے میں دونوں جماعتوں کے درمیان فاصلے کم ہوگئے تھے۔ آصف علی زرداری اور عمران خان دونوں نے جلسے میں شرکت کی، تاہم ٹائمنگ ان کی اپنی تھی۔ عمران خان خطاب کرنے کے لئے اس وقت آئے جب زرداری اپنی دھواں دھار تقریر کرکے جاچکے تھے۔ اس جلسے سے یہ امید باندھی جا رہی تھی کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے قریب آجائیں گی، لیکن یہ توقع پوری نہ ہوسکی اور ’’نیڑے نیڑے اوندے، اسیں دور دور چلے گئے‘‘ والی کیفیت پیدا ہوگئی۔ دونوں جماعتوں کے قریب آنے کا جو تاثر بن رہا تھا، عمران خان نے اسے پورے اہتمام کے ساتھ زائل کیا۔ تاہم جب ان کی جماعت نے سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کے لئے پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار سلیم مانڈوی والا کو ووٹ دیا تو بہت سے حلقوں کو حیرت ہوئی، کیونکہ تحریک انصاف کی جانب سے باقاعدہ اعلان سامنے آچکا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دے گی، لیکن اس کے باوجود جب ووٹ دے دیا گیا تو پیپلز پارٹی کو یہ کہنے کا موقع ضرور مل گیا کہ یہ ہماری سیاست کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ تیر کمان سے نکلنے کے اگلے ہی روز عمران خان نے پہلے کی سی شد و مد سے پیپلز پارٹی پر نکتہ چینی شروع کی تو انہیں اس ووٹ کے طعنے بھی ملنے لگے، اب عمران خان نے زرداری کے شہر نواب شاہ جاکر انہیں للکارا ہے اور ان کے جیل جانے کی پیش گوئیاں کی ہیں تو پیپلز پارٹی کو بھی جواب دینے کی ضرورت پڑ گئی۔ بلاول بھٹو نے میرپور ماتھیلو میں کہا کہ عمران خان کہتے تو یہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے، لیکن ابھی ان کے انگوٹھے سے وہ سیاہی خشک نہیں ہوئی جس کے ذریعے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لئے ہمارے امیدوار کو ووت دیا گیا تھا۔ اب یہ ایسی کمزوری ہے جس کا کوئی مسکت جواب تو عمران خان سے بن نہیں پا رہا۔ البتہ وہ زرداری کو سندھ کی سب سے بڑی بیماری کہتے چلے جا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ آئندہ بھی ہمیں ووٹ دیں گے۔ اس کی نوبت تو اس وقت آئے گی، جب قومی اسمبلی میں کسی جماعت کو اکثریت حاصل نہ ہوئی تو پھر جوڑ توڑ بھی ہوگا، سیاسی داؤ پیج بھی لڑیں گے اور کسی ایسے رکن اسمبلی کو وزیراعظم بنانے کی کوشش کی جائے گی جس کے پاس بھلے اکثریت نہ ہو، لیکن بڑی جماعتیں اس کے نام پر متفق ہو جائیں۔ یہ منظر اگر وجود میں آتا ہے تو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان فاصلے مٹانے کی ایک بار پھر کوشش کی جائے گی۔ تاہم اس سب کا انحصار اس صورت حال پر ہوگا، جو پیدا ہوگی یا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر کوئی جماعت سادہ اکثریت حاصل کرلیتی ہے تو پھر اس طرح کے جوڑ توڑ کی سرے سے ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کے خلاف جو طنزیہ تیر و نشتر چلائے ہیں اور یہ تک کہہ دیا ہے کہ پی ٹی آئی آئندہ بھی پیپلز پارٹی کو ووٹ دے گی۔ عملاً ایسا حادثہ ہوتا ہے یا نہیں، لیکن سینیٹ کے انتخابات کے ووٹنگ پیٹرن کو سامنے رکھا جائے تو بعید نہیں ایسا ہو بھی جائے۔
سینیٹ کے عہدیداروں کے الیکشن سے پہلے جب سینیٹ کے ارکان کا انتخاب ہو رہا تھا تو عمران خان نے خود کہا تھا کہ ان کی پارٹی کے بعض ارکان اسمبلی نے ووٹ فروخت کئے ہیں، پھر انہوں نے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو اس سلسلے میں انکوائری کا حکم بھی دیا اور انہوں نے بعض نام بھی پیش کئے، جن پر ووٹ فروخت کرنے کے بارے میں شبہ کیا جا رہا تھا۔ اب اگر اسی بات کو لے کر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ووٹوں کی خرید و فروخت کا تذکرہ کر دیا ہے تو ان کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ حالانکہ ان کے بیان کی بنیاد تو عمران خان کا اپنا بیان تھا، اسی طرح ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے بھی کھل کر کہا تھا کہ ان کے کئی ارکان صوبائی اسمبلی نے ووٹ فروخت کئے اور اس کے شواہد بھی اس شکل میں مل گئے کہ پیپلز پارٹی کو اس کی عددی اکثریت سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ معلوم نہیں عمران خان اور ڈاکٹر فاروق ستار ایسی سچی باتیں برسرعام کرنے کے لئے کیوں بے قرار تھے۔ اگر ووٹوں کی خرید و فروخت ہو رہی تھی تو سارا معاملہ خفیہ تھا۔ کیا ضرورت تھی اتنا کھرا سچ بولنے کی جس کو بعد میں جھوٹ کہنا پڑے، اب دلچسپ صورت حال یہ بنی ہوئی ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اگر کہتے ہیں کہ سینیٹ کے ووٹوں کی خرید و فروخت ہوئی تو کبھی انہیں سینیٹ میں بلانے کی بات کی جاتی ہے اور کبھی ان کے خلاف تحریک استحقاق پیش کی جاتی ہے۔ اصولاً تو تحریک استحقاق سب سے پہلے عمران خان اور فاروق ستار کے خلاف پیش ہونی چاہئے کہ انہوں نے اپنے اپنے ارکان اسمبلی کے خلاف ووٹ فروخت کرنے کا الزام کیوں لگایا؟ وہ اگر ایسا نہ کرتے تو شاید وزیراعظم کو بھی یہ بات نہ کہنا پڑتی اور اگر کہتے تو اپنی معلومات کی بنیاد پر ایسا کرتے، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے جوش جذبات میں ایک بات کہہ دی اور اب جب معاملہ آگے بڑھ گیا ہے تو وہ اپنے بیانات کو بھول کر وزیراعظم کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں، ہم الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا۔
تیر و نشتر

مزید :

تجزیہ -