یہ عشق کی کہانی ہے۔ زندگی میں ایسے کئی انسانوں سے ملاقات ہوئی ،جن کے ہاتھوں پر خود کو ختم کرنے کی کمزور کوشش کے نشان تھے۔ مجھے عشقِ مجازی کا جو روپ ان ہاتھوں پر خود سے بنائی لکیروں میں دکھائی دیتا تھا،وہ سب مصنوعی تھا۔ وہ جسم کا عشق تھا،اسے عشقِ مجازی کہنا عشق کی توہین تھی۔ ایک دن اسی کھوج میں ایک دربار کا رخ کر بیٹھا ۔ مجھے ایک ایسے شخص سے ملنا تھا،جو میرے ریڈیو کے پروگرام میں ایک دو بار مہمان کے طور پے آیا ۔ کمال آواز تھی اس کی،بابا بلھے شاہ کا کلام ، قوالی ، حمدو نعت ۔سب پر عر وج حاصل تھا اسے۔اس کے گلے میں کچھ ایسا تھا،جو سننے والوں کو کچھ دیر کے لیے اس دنیا سے بے دخل کردیتا تھا اورکسی اور ہی دنیا کا مسافر بنا دیتا تھا۔ مجھے اسی کی تلاش تھی۔ مزار پر پہنچا تو ایک کونے میں اس لیٹے پایا۔ پاس بیٹھا اور بچے کی طرح ضد کرنے لگا کہ وہ مجھے بابا بلھے شاہ کا کلام سنائے۔ آج میری قسمت جاگ اٹھی تھی۔وہ وجد کی حالت میں تھا۔ ایک بار اس نے میرا نام لیا اور پھر بولتا چلا گیا۔اس سارے لمحے میں مجھے کئی بار احساس ہوا کہ مجھے جکڑ لیا گیا ہے۔ میں کسی اور دنیا میں سفر کررہا ہوں۔
’’بیٹا ،جو تو پوچھنے آیا ہے،میں جانتا ہوں۔ یہ سب عورت کی زُلف کی اسیری ہے۔ وہ ایک طوائف تھی۔ میں بندہ بشر ،جوانی ۔راہیں متعین نہیں تھیں، دل دے بیٹھا۔ اس کے بستر پر پڑی کئی سلوٹیں،مجھے اس سے باز نہیں رکھتی تھیں۔ مجھے شروع میں جسم کی کشش اس کے پاس لے کر گئی،مگر پھر وہ سب بدل گیا، میرا سونا، میرا جاگنا، میری سوچیں،سب اس کی زلف کی اسیر ہی تو تھیں۔ ماں باپ سے پیار تھا،ماں سے بات کی تو اس نے مجھے زندہ دفن کرنے کا بول دیا۔میں نے ماں چھوڑ دی، کیسا بد بخت تھا میں۔ جوگی بن گیا۔ نیلے آسمان پر باد ل آچکے تھے۔ بارش ہونے کو تھی۔ مجھے نہ جانے کیوں ایسا لگنے لگا کہ بادل بھی اس کی محبت کا قصہ سننے اکھٹے ہو چلے ہیں۔ تمہیں کبھی ایسا عشق ہوا ہے ؟ نہیں ہوا ہوگا۔یہ وہ عشق ہے ہی نہیں ،جسم کا عشق ۔ یہ روحوں کا عشق ہے۔یہ عشق انسان کو کائنات کے کسی دوسرے حصے میں لے جاتا ہے،زمین پر رہنے نہیں دیتا ،عشقِ لاحاصل۔ جب انسان جھولی بھر بھر محبت کرے اور خالی دل ،خالی ہاتھ لے کر پھرے ،ایسا عشق۔یہ غلط ہے کہ عشق کیا جاتا ہے۔ یہ تو بس ہو جاتا ہے بچے۔اس کا وار اتنا سخت ہوتا ہے کہ اس کی جھونک شاید ہی کوئی سنبھال سکتا ہے، نگاہیں ،بینائی کھو دیتی ہیں،عقل شکست کھا جاتی ہے۔ یہ ایسا عشق ہے۔ پاک عشق۔ مجھے ماں کی طرح ،اس کے در سے بھی ٹھوکر کھانی پڑی، میری روح کو وہ جسم سمجھتی رہی اور میں پاگل ،اس کے جسم کو روح سمجھ کر اپنا سب کچھ بربار کر بیٹھا۔ بس پھر میں آکر یہاں خدا کے بندے کے در پر بیٹھ گیا۔ رو رو کر، گڑ گڑا کر،بچوں کی طرح اپنے رب سے اسے مانگنے لگا۔ مگر وہ کہاں مل سکتی تھی ،مجھے۔ شاید مل جاتی تو خدا نہ ملتا۔پتہ نہیں۔ بادلوں کی گرج ،ایسی تھی کہ میری طرح بادل بھی،اس کی اس بات پر ناراض تھے۔کہ وہ ایسی عورت کے ساتھ محبت کو خدا کی محبت سے کیسے ملارہا ہے۔ بابا جی ، خدا نہ ملتا مطلب، ایک گنہگار عورت کے ساتھ یوں محبت ہوجانا ، ایسے تو میری زندگی میں بھی کئی خیال آئے، کہ مجھے لگا کہ مجھے اس لڑکی سے محبت ہو چلی ہے۔ مگر میں نے تو ہمیشہ اس کو ناپاک جانا۔ وہ چیخ اٹھا۔ وہ ناپاک ہی تھی، اسے محبت کا نام نہیں دے سکتے۔ تم روح کا مطلب نہیں جانتے ۔ جسم کے طواف،جسم کی محبت ،اس کو روح کی محبت کانام دو گے،تو و ہ ناپاک ہوگی‘‘ ’’مطلب، باباجی طوائف سے محبت پاک محبت ، کسی بھی لڑکی سے محبت ،ناپاک محبت میں سمجھا نہیں‘‘
بابا جی نے سر جھکایا ،آنسو ؤں سے چہرہ تر ہونے لگا’’خدا کے لیے ،روح کی محبت کو ناپاک نہیں کہو، روح طوائف نہیں ہوتی ۔روح ،روح ہوتی ہے۔ میں اس عورت کو مانگنے یہاں دن رات خدا کی عبادت کرنے لگا، میں عبادت اس لیے نہیں کرتا تھاکہ مجھے یہاں وقت گزاری کا بہانا چاہیے تھا۔مجھے تو بس سکون ملتا تھا۔ ایسا سکون جو میں بیان نہیں کر سکتا ۔ ایسے جیسے میں اس دنیا میں ہوں ہی نہیں۔ پھر وہ وقت آیا جب مجھے میرے نبی پاک ﷺ نے ہاتھوں میں اٹھا لیا‘‘
میں چونک گیا ’’مطلب؟ ‘‘
’’پترامطلب یہ جوہرا رنگ میں نے پہن رکھا ہے۔ مطلب صراطِ مستقیم۔ مطلب ایک ایسا راستہ ،جس کے سب راستے عالمِ ارواح کی طرح جاتے تھے۔ میری نمازیں ، میری عبادت ،میری حمد، میری نعت،بس یہی تو میری کائنات تھی۔ مجھے ایک ایسے جسم کی روح نے ایسی جگہ پہنچا دیا ،جہاں میں لاکھ عبادتوں کے ساتھ بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ مجھے اللہ سے عشق ہوگیا تھا۔ یہ بھی روح کا عشق تھا۔جسم کا نہیں۔ اب میں بس جب دل کرتا ہے ،اپنے محبوب سے گھنٹوں باتیں کرتا ہوں، یہ ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے ،جو مجھے دیوانہ کر دیتی ہے۔ مگر مجھے تو لگتا ہے کہ عشق دماغ کا خلل ہے، میں اپنے کئی ایسے مریضوں کو جانتا ہوں ،جن کے دماغ کے ایک مادے ڈوپامین کو جب دوائی دے کر کم کیا ،تو ان کا سب عشق بھاگ گیا۔ کونسا عشق؟ جسم کا عشق؟ جسے تمہیں عشقِ مجازی کا نام دے کر، میرے اور خدا کے عشق کی توہین کرتے ہو؟ وہ عشق جو ہر دن نئی عورت کے ساتھ ہوجاتا ہے؟ وہ عشق؟ اچھا یہ بتاؤ خودی کیا ہے؟‘‘
میں بولا’’ بابا جی اقبال کی خودی؟ ‘‘
وہ بولے ’’ہاں وہی سمجھ لو‘‘
’’ خودی مطلب میں،اپنا پن‘‘
وہ بولے’’ نہیں ، ہر گز نہیں، خودی مطلب ،نفس اور تیرے اندر بیٹھی روح کی جنگ۔ روح تجھ پر حاوی ہوگئی ، تجھے کسی سے روح کا عشق ہوگیا،وہ عشق لاحاصل رہا،تو نے اس عشق کی جگہ اس ہرے رنگ کو دے دی ،اس طرح تیری ناؤ پار لگ گئی اور تو نے سراغِ زندگی پالیا ۔ مطلب جسم یا نفس کو ہرا کر اپنی روح کی خوراک پوری کرنا؟ اس طرح روح کو پال کر اتنا طاقت ور بنا دینا کہ تیری میں مرجائے اور تو جاگ جائے۔ مطلب خدا کو پالے، زندگی کو پالے۔ تیز بارش ہونے لگے ‘‘
میری آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔ مجھے واپس لوٹنا تھا۔ مگر قدم بوجھل تھے۔ بابا جی مسکرائے اور بولے ’’چل اب تیرا کام کیے دیتے ہیں۔آنکھیں بند کر ‘‘
ایک آواز روح سے ٹکرانے لگی
مکہ گیاں گل مکدی نہ ہی، پاویں سو سو جمعہ پڑھ آیے
گنگا گیاں گل مکدی نہ ہی،پاویں سو سو غوطے کھایے
بلھے شاہ گل تایوں مکدی جدوں میں نوں دلوں مکائیے
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہوئیں ، کدی ا پنے آپ نوں پڑھیا نہیں
جا جا وڑنہ مندر مسیتی، کدی من اپنے وچ وڑیا ہی نہیں
ایویں روز شیطان نال لڑنا ایں ،کدی نفس اپنے نال لڑیا ای نہیں
بلھے شاہ آسمانی اڈدی پھڑنا، جیڑا کھر بیٹھا انوں پھڑیا ای نہیں
بارش تیز ہوچکی تھی۔ ایک وجد کا عالم تھا۔ میں نے عورت کی زُلف کے اسیر ،ایک خدا سے ولی سے ملاقات میں،عشقِ حقیقی کی جھلک دیکھ لی تھی۔ یہ منزل آسان تھی۔ ماضی تلخ تھا۔ مگر مجھے عشقِ حقیقی کے اس سفر میں عشقِ مجازی کی راہوں میں بھٹکنے کے خوف نے لرزہ دیا تھا۔ کالی زُلفیں ، گہری آنکھیں ، یہ سب کس منزل کی جانب لے جاتی ہیں۔ یہ منزل میرے سامنے بیٹھی تھی۔ مگر وہ ایک وجد کا عالم تھا،جس کی جھلک ہی میرے لیے ، آبِ حیات تھی۔ یہ ایک عشق کی کہانی تھی۔روح کے عشق کی سچی کہانی۔(www.facebook.com/draffanqaiser)
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔