کپتان فرنٹ فٹ پر!

کپتان فرنٹ فٹ پر!
کپتان فرنٹ فٹ پر!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عمران خان شاید پہلے وزیراعظم ہیں، جو حکومت گرانے کی دھمکی پر گھبرانے کی بجائے آگے بڑھ کر کہتے ہیں؟ آؤ گراؤ، دیر کس بات کی۔اب اُن کی اس بات پر مخالفین لاجواب ہو جاتے ہیں، عمران خان تو کنٹینر دینے، بلکہ کھانا تک فراہم کرنے کی پیشکش کرتے ہیں۔

اس بار تو جمرود کے جلسے میں انہوں نے آصف علی زرداری کو یہ چیلنج بھی دے دیا کہ وہ اسلام آبا میں دھرنے میں سات دن بیٹھ کر دکھائیں، وہ انہیں سیاست دان مان جائیں گے۔اس قسم کے حکومتی ردعمل کی تو اپوزیشن کو کبھی بھی امید نہیں رہی۔

ہوتا تو یہ رہا ہے کہ اُدھر کسی نے کہا کہ اسلام آباد آئیں گے،اُسے جام کر دیں گے، تو حکومت کا جواب یہی ہوتا ہے،کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔اسلام آبا کو محبوس کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا جائے گا، وغیرہ وغیرہ، مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے،ملک کا وزیراعظم خود دعوت دے رہا ہے،گویا:
جسے ہے شوق وہ آئے کرے شکار مجھے
شاید اپوزیشن کی دھمکیوں کا اس سے اچھا جواب نہیں ہو سکتا۔ خاص طور پر جب آپ نے اپوزیشن کی کوئی بات ماننی ہی نہ ہو۔ وزیراعظم عمران خان تو الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی تقرری کے لئے اپوزیشن لیڈ ر شہباز شریف سے بالمشانہ ملنے کو تیار نہیں۔ ایسے میں وہ کسی دھمکی کے جواب میں مذاکرات کی دعوت کیسے دے سکتے ہیں۔ اب بلاول بھٹو زرداری نے لات مار کر حکومت گرانے کا جو بیان دیا ہے، عمران خان جیسا اپنے زمانے کا اکھڑ کپتان بھلا اُسے کیسے سنجیدہ لے سکتا ہے۔ یہ لات مار کر حکومت کیسے گرائی جاتی ہے، ہمیں تو اس کا کوئی تجربہ نہیں،کسی کو ہے تو بتائے۔

محاورہ تو یہ ہے کہ مَیں حکومت کو لات مارتا ہوں، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصولوں کو نہیں چھوڑوں گا، حکومت کو چھوڑ دوں گا۔ بلاول بھٹو زرداری کے تقریر نویس کم از کم محاورے تو اچھی طرح سیکھ لیں، وگرنہ جگ ہنسائی ہو گی۔ اب اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر گدھے کی دولتیاں ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے، جو پچھلی لاتیں مار کر کبھی بندے گراتا ہے اور کبھی دیوار توڑ دیتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے سیاست دان بدلے ہوئے حالات کو نہیں سمجھ سکے۔ وہ اُسی زمانے میں زندہ ہیں، جب صرف پی ٹی وی ہوا کرتا تھا۔

اپوزیشن ہڑتال کرتی تھی تو پی ٹی وی ایک دن پہلے کھلی دکانوں کی فوٹیج خبرنامے میں چلا کر یہ پروپیگنڈہ کرتاکہ عوام نے ہڑتال پر توجہ نہیں دی اور وہ بری طرح ناکام ہو گئی۔ لوگ مان بھی جاتے تھے، کیونکہ اُن کے پاس حقائق جاننے کا اور کوئی ذریعہ ہی نہیں تھا۔

اب تو ہر شخص صحافی اور فوٹو گرافر بنا ہوا ہے، جو چاہتا ہے دکھاتا ہے اور سناتا ہے،اب ایسے میں سیاست دان جب کوئی بے پرکی بقراطی جھاڑتے ہیں تو اُن کا ریکارڈ لگانے والے فوراً میدان میں آ جاتے ہیں۔
آصف علی زرداری جب کپتان کو یہ چیلنج کریں گے کہ اب انہیں نکالنے کا وقت آ گیا ہے تو عمران خان جواب میں یہی کہیں گے کہ نہیں آپ کو جیل میں ڈالنے کا وقت آ چکاہے، حکومت جانے کے ایسے کون سے آثار ہیں، جن کی وجہ سے کوئی یہ مانے کہ عمران خان کا چل چلاؤ ہے،اِس لئے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ حکومت کہیں نہیں جا رہی۔البتہ آپ جیل جا رہے ہیں تو لوگوں کو کپتان کی بات زیادہ قرین قیاس لگتی ہے۔ عمران خان کا کھلاڑی وزارتِ عظمیٰ پر بیٹھ کر بھی پوری طرح متحرک ہے۔ کھلاڑی کی سرشت ہوتی ہے کہ وہ مدمقابل سے دبتا نہیں،کیونکہ ایسا کرے تو اُس کی شکست وقت سے پہلے اُس کا مقدر بن جاتی ہے۔

عمران خان کو پتہ ہے کہ انہوں نے کس وکٹ پر کھیلنا ہے۔وہ جانتے ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے لوگوں میں حکومت کا امیج خراب ہوا ہے۔وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ لوگوں میں حکومت کے حوالے سے مایوسی بھی بڑھی ہے، مگر ایک بات جسے وہ اب بھی میچ وننگ فیکٹر سمجھتے ہیں، وہ ہے یہ بیانیہ کہ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے، کوئی این آراو نہیں کریں گے، لوٹی ہوئی قومی دولت واپس نہ کی گئی تو جیلوں میں رہنا پڑے گا۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری سے کوئی رعایت نہیں ہو گی۔ عوام اس بیانیہ کو بہت پسند کرتے ہیں۔

وہ کرپشن کی ہوشربا داستانیں سامنے آ جانے کے بعد اس انتظار میں ہیں کہ لوٹی گئی دولت واپس آئے، کڑا احتساب ہو۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ جب شریف خاندان اور زرداری فیملی احتساب کے شکنجے میں دکھائی دے رہی ہیں،عوام کے پاس اس کے سوا کیا آپشن ہے کہ وہ عمران خان کو وقت دیں۔ اُن کی حکومت گرتی ہے تو عوام کو کوئی دوسرا ایسا نظر نہیں آتا،جو ملک میں دیانتداری، ایمانداری اور شفاف حکومت کی بنیاد رکھے، جو احتساب کے ایجنڈے پر ڈٹ جائے اور سیاسی دباؤ پر کوئی بھی رعایت دینے سے انکار کر دے۔شریف خاندان نے تو اپنا بیانیہ اس حد تک بدل لیا ہے کہ وہ حکومت گرانے پر یقین نہیں رکھتے، جس دن نیب ٹیم نے ماڈل ٹاؤن میں شہباز شریف کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا، حمزہ شہباز شریف نے گرفتاری دینے سے انکار کیا اور نیب ٹیم کے چلے جانے پر پریس کانفرنس کی، اُس میں بھی انہوں نے اِس بات کو دہرایا کہ ہم حکومت گرانے کے حق میں نہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ اپنی مدت پوری کرے۔

البتہ احتساب کے نام پر انتقام پر ہم احتجاج ضرور کریں گے۔ یہ ایک ہوشمندانہ بیانیہ ہے، جو بدقسمتی سے آصف علی زرداری جیسا سینئر سیاست دان نہیں اپنا سکا۔
ایک ایسا شخص جو کرپشن کیسوں میں ملوث ہو اور اس کے خلاف بے شمار شواہد بھی اکٹھے ہو چکے ہوں۔ وہ اگر یہ کہے کہ حکومت کو مزید برداشت نہیں کر سکتے اور اُسے گھر بھیج کر دم لیں گے۔ اُس کی اس بات کا اخلاقی جواز تو بنتا ہی نہیں۔ حکومت تو اجتماعی مفاد کی خاطر گرائی جاتی ہے، یا کم از کم اُس کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ کسی شخص کے ذاتی مفاد یا مسئلے پر حکومت گرانے کی دھمکی ویسے ہی مضحکہ خیز نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) تو اس نکتے کو سمجھ گئی ہے،لیکن آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو اسے سمجھنے کے لئے تیار نہیں، ایسے میں وزیراعظم عمران خان کی طرف سے دیا جانے والا جواب ہی تھوڑی بہت تشفی کرا سکتا ہے

۔انہوں نے تو گیند زرداری کے کورٹ میں ڈال دی ہے کہ وہ جب چاہیں اسلام آباد آنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں،حکومت سہولتیں فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔مَیں نے اپنے کئی کالموں میں اِس پہلو کا ذکر کیا ہے کہ اپوزیشن جیتنا عمران پر یہ الزام لگائے گی کہ وہ احتساب کے نام پر انتقام لے رہے ہیں، وہ اتنا ہی عوام کی نظروں میں سرخرو ہوتے جائیں گے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک جو کیسز چلے ہیں یا چل رہے ہیں،نواز شریف یا آصف علی زرداری اپنے پر لگنے والے الزامات کا عدالتوں میں شافی جواب نہیں دے سکے۔

نواز شریف کو تو اسی وجہ سے سزائیں بھی ہوئیں۔ اب منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس کیس میں آصف علی زرداری بے گناہی کے شواہد پیش کرنے کی بجائے سندھ کارڈ استعمال کر رہے ہیں یا پھر اٹھارہویں ترمیم ختم کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ اِن دونوں کا بھلا منی لانڈرنگ کیس سے کیا تعلق ہے؟ معاملات تو عدالتوں اور نیب کے پاس ہیں۔اب کان کو دوسری طرف سے پکڑ کر جواب دینا تو بنتا نہیں، البتہ اس وقت ان کی باتوں میں وزن پیدا ہوتا جب وہ منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس کیسوں سے خود کو بری الذمہ ثابت کرتے۔ اُن کے قریبی ساتھیوں کے خلاف نیب ریفرنسز دائر ہو رہے ہیں، خود وہ ضمانت پر ہیں، لیکن گرانا حکومت چاہتے ہیں۔

اب کپتان اتنے بھولے تو نہیں ہیں کہ مخالف کھلاڑی کی نفسیات یا حکمتِ عملی کو نہ سمجھتے ہوں،وہ جانتے ہیں کہ زرداری کی دھمکیاں شکست اور گرفتاری کے خوف کا نتیجہ ہیں،ایسی دھمکیوں پر کپتان کا آگے بڑھ کر فرنٹ فٹ پر کھیلنا ایک کامیاب حکمتِ عملی ہے جو انہیں کم از کم احتساب کے معاملے میں عوام کے سامنے سرخرو کئے ہوئے ہے۔

مزید :

رائے -کالم -