کیا مسئلہ خودداری کا ہے؟

کیا مسئلہ خودداری کا ہے؟
کیا مسئلہ خودداری کا ہے؟
سورس: Twitter

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گزشتہ تین دنوں سے ملک عزیز پاکستان شدید آئینی و سیاسی بحران کا شکار ہے. قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد کو بالکل غیر متوقع اور عجیب طریقے سے ٹھکانے لگایا گیا ہے کہ جس پر  تمام اہل علم و دانش سر پکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں لیکن تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے. ڈپٹی سپیکر صاحب نے عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانے کی بجائے اس قرارداد کو غیر ملکی سازش قرار دیتے ہوئے خارج کردیا. غیر ملکی سازش کے متعلق فواد چوہدری صاحب نے دو منٹ قومی اسمبلی میں گفتگو کی اور ساتھ ہی ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے رولنگ پڑھ کر اجلاس ملتوی کردیا. جبکہ اس کاروائی کے چند منٹوں بعد وزیراعظم عمران خان صاحب نے اسمبلیاں توڑنے کا بھی اعلان کردیا. پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے استعفے کے بعد نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے6 اپریل کو  ووٹنگ ہونا تھی جبکہ عمران خان صاحب نے پرویزالہی کے ساتھ مل کر پنجاب کی ووٹنگ بھی ملتوی کروادی کیونکہ ان کے پاس مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہے.
پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے جب کسی بھی غیر آئینی کام کو کرنے کا عذر پیش کیا تو تحریک انصاف نے اپنے ہی ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروادی اور پنجاب اسمبلی کو تالے لگوا کر اس کے گرد خاردار تاریں لگوادیں تاکہ اسمبلی کے اندر پنجاب کے منتخب نمائندے ہی داخل نہ ہوسکیں. وفاق کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی شدید آئینی بحران پیدا ہوچکا ہے. مسلم لیگ ن نے اپنے حامی ارکان پنجاب اسمبلی کی مدد سے ایک نجی ہوٹل میں علامتی اجلاس منعقد کیا اور وہاں پر میاں حمزہ شہباز شریف کے حق میں 199 ووٹ کاسٹ کردیے. پنجاب کا وزیراعلیٰ بننے کے لیے پرویزالہی یا حمزہ شہباز کو 186 ووٹ درکار ہیں لیکن حمزہ شہباز کے پاس 199 ووٹوں کا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ان کو واضح اکثریت حاصل ہے. ان ووٹوں کی آئینی حیثیت کیا ہے یا حمزہ شہباز شریف صاحب کے مینڈیٹ کو تسلم کیا جاتا ہے یا نہیں یہ الگ بحث ہے. لیکن پنجاب کے 199 ووٹوں کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنا بھی پورے پنجاب کی توہین ہے.
پاکستان کے عوام اپنے نمائندے منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجتے ہیں ،  ہر موقع پر براہ راست عوام سے رائے لینا آسان کام نہیں اس لیے مختلف حلقے بنا کر ان میں انتخابات کروائے جاتے ہیں اور زیادہ ووٹ لینے والا شخص اس حلقے کا نمائندہ کہلاتا ہے. اگلے پانچ سال اس نمائندے کا کام اپنے حلقے کے عوام کی پارلیمان میں نمائندگی کرنا ہوتا ہے. کسی بھی مسئلے، قانون، بل یا اسمبلی میں لائے جانے والے معاملے پر اس کا ووٹ یا رائے اپنے حلقے کے عوام کی ترجمانی ہوتی ہے.
وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بننے کے لیے یہ کافی نہیں ہوتا کہ جو پارٹی زیادہ نشستیں حاصل کرلے اس کا منتخب کردہ بندہ قائد ایوان بن جائے گا بلکہ اس کو دوبارہ اس ایوان میں آکر ووٹ لینا پڑتے ہیں اور یہ ووٹ پورے پاکستان کے عوام کی طرف سے بنائے گئے نمائندے کاسٹ کرتے ہیں.اسی طرح اگر کسی کو ایوان میں اکثریت حاصل  نہ رہے تو اس کے خلاف عدم اعتماد لاکر اس ایوان کو پورا اختیار حاصل ہوتا ہے کہ یہ جس پر اعتماد کا اظہار کریں اسے وزیر اعظم یا وزیراعلیٰ منتخب کرلیں. لیکن ان منتخب نمائندوں کو ان کے اس آئینی، قانونی،اخلاقی اور سیاسی حق سے بزور قوت محروم رکھا جارہا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے.

عمران خان صاحب کی طرف سے الزام یہ ہے کہ چونکہ مجھ سے امریکہ خفا ہے اس لیے اس نے ہمارے ملک کے ممبران پارلیمنٹ کو میرے خلاف اکسایا ہے جس کے نتیجے میں یہ لوگ مجھے اقتدار سے محروم کرنا چاہتے ہیں.یہ انتہائی سنجیدہ اور اہم الزام ہے جس پر ابھی تک کوئی ثبوت تو منظر عام پر نہیں آیا مگر پوری دنیا میں اس وقت پاکستان کی  جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ عمران خان کے اس الزام نے پوری دنیا میں پاکستان کی خودمختاری پر گہرے سوالات ثبت کردیے ہیں.پاکستان کی آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی، جمہوریت اور عوامی حکمرانی مشکوک ہوچکی ہے. اگر یہ الزام سچ تسلیم کرلیا جائے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آج تک پاکستان میں امریکہ کی مرضی کے بغیر حکومتیں نہیں بن سکیں اور نہ قائم رہ سکی ہیں. عمران خان نے امریکہ کی بات ماننے سے انکار کیا تو امریکہ نے چند ہفتوں میں عمران خان کو اقتدار سے محروم کردیا. یوں یہ ثابت ہوگا کہ پاکستان میں حکومت بنانے میں پاکستانی عوام کی نہیں بلکہ امریکہ کی مرضی چلتی ہے.ان الزامات کی بناء پر عمران خان صاحب قومی اسمبلی کے تقریباً 200 ارکان کو امریکی ایجنٹ ثابت کرنے پر مصر ہیں کہ جو غیر ملکی سازش پر حکومت گرانا چاہتے تھے.
مزے کی بات یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد اس لیے مسترد کی گئی کہ یہ حکومت گرانے کی غیر ملکی سازش ہے اس لیے اس کو پورا نہیں کیا جاسکتا لیکن اگلے ہی لمحے عمران خان صاحب نے خود حکومت گرا کر اپنے ہی ہاتھوں اس غیر ملکی سازش کو پورا فرما دیا.یہ الزام پاکستان کی پوری دنیا میں تذلیل کروانے کا سبب بن رہا ہے اس پر فی الفور تحقیقات ہونی چاہئیں اور اگر یہ الزام سچا ہے تو اس سازش میں شریک لوگوں کو اور اگر یہ الزام جھوٹا ہے تو لگانے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے تاکہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے آئندہ کوئی یوں وطن  عزیز پاکستان کی سالمیت سے نہ کھیل سکے.
عمران خان کا دعوی ہے کہ میری خودداری اور آزادانہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے امریکہ نے یہ چال چلی ہے تو میرا سوال یہ ہے کہ  جب اسی یورپی یونین کے ناراض ہوجانے کا خوف دلا کر آپ اپنے وطن عزیز میں لگی آگ کو ان کا مطالبہ پورا نہ کرسکنے کا عذر پیش کرتے تھے اور اس کو بجھانے سے معذرت کرتے تھے تب یہی خودداری تھی یا وہ ناراضگی کا خوف خودداری سے ماوراء تھا؟جب آپ نے خود ملائیشیا میں مہاتیر محمد کو کہہ کر اسلامی چینل بنانے کے لیے کانفرنس رکھوائی تھی اور بعد میں ایک ملک کی طرف سے منع کرنے پر آپ نے عین موقع پر وہاں نہ جا کر پاکستان کو شرمندہ کروایا تھا اور وہ محفلیں سجائے آپ کا انتظار کرتے رہ گئے تھے تب کس خودداری کا مسئلہ تھا؟جب آپ نے کئی دفعہ چینی سرمایہ کاروں سے صرف اس لیے ملنے سے انکار کردیا تھا کہ یہ امریکہ کو اچھا نہیں لگے گا تب کون سی خودداری کا اظہار کیا تھا؟جب سی پیک کو صرف اس لیے  پس پشت ڈالا تھا کہ امریکہ خوش ہوجائے تب بھی یہی امریکہ تھا اور یہی ہماری خودداری تھی. جب امریکہ کے دورے کے دوران امریکی صدر کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکشیں کی تھیں جس کے بعد بھارت نے وہ جارحیت کی کہ جو پہلے کبھی تاریخ میں نہ کرسکا تھا اس وقت خودداری کا مفہوم کیا تھا؟ جب اسی امریکہ کے دورے سے واپسی پر خود کو ورلڈ کپ جیت کر آنے سے تشبیہ دی تھی تب امریکی ایجنٹ کون تھا؟خدارا سیاسی اختلافات کو یہیں تک رکھیں اس سے ملک کی خودمختاری داؤ پر مت لگائیں.  یہ کوئی مذاق کی بات نہیں ہے اس سے ہمارے ملک کی بدنامی ہورہی ہے خدارا حقائق سامنے لائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو.

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

مزید :

بلاگ -