آئین:پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ 

  آئین:پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ 
  آئین:پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ 

  


 سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کی طرف سے پنجاب میں 14مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دیا گیا، بنچ کی سربراہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کی، جسٹس اعجاز لاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ کے رکن تھے، یہ بنچ بنیادی طور پر 5 رُکنی تھا جس سے جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندو خیل بوجوہ الگ ہو گئے،ان کے الگ ہونے پر حکومتی اتحاد کی طرف سے فل کورٹ بنچ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا جبکہ تحریک انصاف نے کہا کہ چیف جسٹس کی صوابدید ہے کہ وہ فل کورٹ بنائیں یا اسی بنچ کو برقرار رکھیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو فیصلے میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا، پنجاب میں الیکشن شیڈول پر جتناعمل ہو چکا،وہ برقرار رہے گا۔ حکومت 10اپریل تک21ارب روپیہ الیکشن کمیشن کو جاری کر دے، الیکشن کمیشن فنڈز ملنے کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائے، کمیشن کی رپورٹ کا چیمبر میں جائزہ لیا جائے گا۔ فنڈز نہ ملے تو عدالت متعلقہ حکام کو مناسب حکم جاری کرے گی۔ 


عدلیہ کے بارے میں لکھتے ہوئے ہر ممکن احتیاط کو ملحوظ رکھنا لازم ہے، عدالتی فیصلوں پر تنقید ہو سکتی ہے، تنقید اور تضحیک میں فرق ہے،کوئی کتنی بھی ترش روئی سے کام لے، آیا وہ توہین عدالت کے ضمن میں آتا ہے؟ اس کا فیصلہ کورٹ کرتی  ہے۔
اس فیصلے پر مثبت اور منفی رد عمل آیا، اس کالم میں مَیں  نے جن اکابرین کے رد عمل کا حوالہ دا ہے وہ روزنامہ ”پاکستان“ سے لیا گیا ہے جس کے صفحات میں اداروں پر حرف نہیں آنے دیا جاتا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں کابینہ اجلاس میں کہا گیا۔”آج پھر انصاف کا قتل ہوا،فیصلہ اقلیتی،نا قابلِ عمل،  مسترد کرتے ہیں ……۔“۔ میاں نواز شریف کہتے ہیں۔ ”ہمیں ایک منٹ میں نکال دیا گیا، عمران کو دوبارہ لانے کے جتن کئے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے تین ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائرکرنا چاہیے۔ عدالت کے دُہرے معیار سمجھ نہیں آ رہے، قوم کو کہتا ہوں جاگو! یہ لوگ پاکستان کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف کھڑے ہو جائیں“۔ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے کہا گیا۔آمریت تسلیم نہیں،  بنچ سے ان دو ججوں کو نکال دیا جائے جو اپوزیشن سے بات کرتے پکڑے گئے“۔ مریم نواز شریف نے کہا فیصلہ مسترد کر دینا کافی نہیں، لاڈلے کو مسلط کرنے کی کوشش کرنے والوں کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔ خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں۔”عدالت کو آئین ری  رائٹ کرنے کا اختیار نہیں“۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ایمرجنسی کا آپشن آئین میں درج ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا بیان نپا تلا ہے۔”ترازو کے پلڑے برابر ہوں تو انصاف کا بول بالا ہوگا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے،اس کیس میں سپریم کورٹ کو اجتماعی دانش مندی سے فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ تحریک انصاف کی طرف سے کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کو دفن کردیا، ججز نے آئین اور قانون کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کیا۔


پاکستان میں مضبوط ترین ادارے کی بات کی جائے تو یہ بحث پہلے انڈا پیدا ہوا یا مرغی کی طرح لاحاصل رہتی ہے۔ ہر ادارہ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے مگر اداروں کا وجودپارلیمنٹ سے ہے، وہی سب سے زیادہ با اختیار ادارہ ہے۔ پارلیمنٹ کے فیصلوں میں تصحیح کی ضرورت ہو تو وہ خود کر سکتی ہے۔ عدلیہ کے پاس معاملہ جائے تو اسے پارلیمنٹ نے ہی تشریح کرنے کا اختیار دیا ہے۔ کسی بھی ادارے کے پارلیمنٹ سمیت فیصلوں کو عدالت بدل سکتی ہے، مگر عدالت کے فیصلے حتمی ہونے کے بعد کسی کے پاس بدلنے کا اختیار نہیں ہے۔ البتہ صدر سپریم کورٹ کے کسی کو سزا دینے کے فیصلے کو ختم کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔سزائے موت کی آخری اپیل ایک مثال ہے۔
14مئی کو انتخابات کرانے کا فیصلہ آگیا،یہ سپریم کورٹ کافیصلہ ہے، اس پر عمل ہونا ہے تاآنکہ سپریم کورٹ ہی کے سامنے کوئی دوسری صورت حال آ جائے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل اور وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر نے کہا ہے کہ 14مئی کو الیکشن نہیں ہوں گے،ان سے بڑا قانون دان کون ہو گا وہ اٹارنی جنرل رہے ہیں۔ اکابرین کے بیانات جن کا حوالہ شروع میں دیا۔ وہ فیصلے پر تنقید کے ضمن میں آتے ہیں یا ان سے توہین عدالت کا پہلو بھی نکلتا ہے،اس پر ماہرین ہی کوئی رائے دے سکتے ہیں۔اگرتوہین عدالت کی کوئی کارروائی ہوتی ہے تو اس کا آغاز 11اپریل کو اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن فنڈز نہ ملنے کی رپورٹ پیش کرے۔ ویسے توہین عدالت کی زد میں مسلم لیگ ن کے حالیہ برسوں میں آنے والے نہال ہاشمی طلال چودھری، دانیال عزیز شامل ہیں۔ تھوڑا سا ماضی میں جائیں تو سپریم کورٹ حملہ کیس میں طارق عزیز، اختر رسول اور میاں منیر کو ایک ایک ماہ کی قید ہوئی تھی۔ یہ حملہ نومبر1997ء میں کیا گیا۔ حملہ آوروں میں یہ تین رہنما شامل تھے، یہ کس کے ایما پر حملہ آور ہوئے؟ جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں 5رکنی بنچ نے اس کے تعین  کے لیے سماعت کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا تھا۔وہ کیس کبھی بند نہیں ہوا۔


مارشل لا اور ایمرجنسی کی بات ہو رہی ہے، دونوں کا سرے سے کوئی امکان نہیں ہے۔ ایمرجنسی آرمی چیف نے لگانا ہوتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی تھی، اسی رات افتخار چودھری کی سپریم کورٹ نے اسے ماورائے آئین قرار دیا۔مشرف طاقت میں تھے۔ ایمرجنسی ٹھونس دی گئی۔ جب جج بحال ہوئے تو مشرف بے حال نظر آنے لگے۔ خصوصی عدالت نے سیٹھ وقار کی سربراہی میں مشرف کو موت کا حکم سنا دیا۔ گو اس فیصلے پر عمل نہ ہوسکا اور جسٹس سیٹھ وقارخودمشرف سے پہلے راہیئ ملکِ  عدم  ہو گئے، مگر آئندہ کے لیے مارشل لاء اور ایمرجنسی کے دروازے بند کر گئے۔


حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل لایا گیا ہے جو صدر کے پاس دستخطوں کے لیے گیا ہے۔ اس میں ایک چیف جسٹس کے سوموٹو کے اختیار میں دو ججوں کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ چیف جسٹس پر سوموٹو لینے اور نہ لینے کے حوالے سے بھی تنقید ہوتی رہی ہے۔ اگر سوموٹوکا فیصلہ تین جج کرتے ہیں تو یہ چیف جسٹس کے لیے آسانی ہوگی۔ سوموٹو کے تحت مقدمات کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل نہیں ہوسکتی۔سیاسی وابستگیوں سے بالا سوچ یہ ہے کہ نہ صرف نظر ثانی کی اپیل کا حق ہو بلکہ معاملہ لوئر کورٹس کو بھجوا یا جائے توجس کے خلاف فیصلہ آئے اس کے پاس اپیل کے سارے فورمز موجود ہوں جس سے  انصاف کے تقاضے کماحقہٗ پورے  ہوتے ہیں۔
حکومتی اتحاد انتخابات کرانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ عدالتی فیصلے پر اسی لئے بات ہورہی ہے اور ججز کے کنڈکٹ کو زیر بحث بھی لایا جارہا ہے۔حکومت الیکشن نہ کرانے کے کئی راستے نکال سکتی تھی۔

مزید :

رائے -کالم -