بلاجواز الزام تراشی!

بلاجواز الزام تراشی!

  

 جوں جوں الیکشن قریب آ رہے ہیں،ایک دوسرے پر الزام تراشی بڑھتی جارہی ہے، جس کی ایک واضح مثال چند روز پہلے مسلم لیگ(ن) کے ایم این اے خواجہ آصف اور سینیٹر پرویز رشید کی طرف سے شوکت خانم ہسپتال اور عمران خان پر لگائے جانے والے الزامات ہیں۔یہاں اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا یہ الزامات حقیقت پرمبنی ہیں یا صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے۔بحیثیت ایک بزنس اور اکاﺅنٹس طالب علم مَیں اپنی معلومات آپ لوگوں سے شیئر کرنا چاہوں گا۔پہلا الزام تو عمران خان پر یہ لگایا گیا کہ اس نے Endowment fundکا پیسہ سٹے پر لگا دیا۔یہ فنڈ ایک ایسی سرمایہ کاری ہے ،جس پر پرنسپل amountتو Sameرہتی ہے اور سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع کو ادارہ اپنے آپریشنل کاموں میں استعمال کرتا ہے۔یہ ایک ایسا فنڈ ہے جو ہراچھی آرگنائزیشن استعمال کرتی ہے تاکہ اپنے مستقبل کو محفوظ کیا جا سکے....(کوئی قدرتی آفت یا Recessionکے دور میں بھی استعمال کی جاتی ہے)....شوکت خانم ہسپتال پر ایک تنقید یہ کی جارہی ہے کہ اس کے ممبران نے Endowmeut fundکا پیسہ اصل مقصد پر خرچ کرنے کی بجائے اپنے ذاتی مفاد اور فائدے کے لئے استعمال کیا اورایسی سرمایہ کاری کی جس میں رسک بہت تھا۔

یہ الزام اس لئے درست نہیں، کیونکہ کوئی بھی اچھا ادارہ صرف شارٹ ٹرممیں سوچنے کی بجائے اپنی طویل المدتی منصوبہ بندی کرتا ہے،تاکہ Long Termمیں اپنے اہداف حاصل کرسکے۔اس کی ایک بہترین مثال دنیا کی چند معروف یونیورسٹیوں سے لی جا سکتی ہے،جو Endowmet fundکو Maintainکرتی ہیں، تاکہ اس سے غریب طلبہ و طالبات کو مالی فوائد مل سکیں۔تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے،جہاں ان یونیورسٹیوں نے رسکی سرمایہ کاری کی اور اس کی وجہ سے ان کو بھاری نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی سب سے بڑی اور بہترین بزنس یونیورسٹی سمجھی جاتی ہے ، اس کو اپنی Endowment fund Investmentپر بھاری نقصان ہوا،جس کی وجہ سے اس کی سرمایہ کاری کی مالیت 37بلین ڈالر سے کم ہو کر 30جون کو 26بلین ڈالر رہ گئی۔اسی طرح Stanford Universityکی سرمایہ کاری کی مالیت 17بلین ڈالر سے کم ہو کر 12ملین ڈالر رہ گئی ۔براﺅن اور ییلو یونیورسٹی کو اپنی سرمایہ کاری پر 30اور27فیصد بالترتیب سالانہ نقصان ہوا اور ان تمام یونیورسٹیوں کو جو نقصان ہوا ،وہ ان کی Principle amountپر ہی ہوا تھا،جبکہ اس کے معاملے میں شوکت خانم ہسپتال کو 3ملین ڈالرکا نقصان ہوا،جو آٹے میں نمک کے برابر ہے،چنانچہ یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کہ ایسی سرمایہ کاری صرف شوکت خانم ہسپتال نے ہی کی ہے۔

دوسرا الزام مسلم لیگ(ن) کی طرف سے یہ لگایا گیا کہ ایک Investmentجس کی مالیت3ملین ڈالر ہے،جب اس پر نقصان ہوا تو اس پر Impairmentلے کر اس کی اصل Value(جو کہ Prinicple amountسے کم ہے) کو Financial Statmentsمیں Show کیوں نہیں کیا گیا،جس کا جواب تحریک انصاف کی طرف سے یہ آیاکہ جس کمپنی میں یہ Investmentہوئی ہے، اس کمپنی کے مالک نے Letter of Comfortیعنی Guaranteeدی ہے کہ اگر اس Investmentپر کوئی نقصان ہوا تو وہ ذاتی طور پر اس کا ذمہ دار ہوگا اور اپنی جیب سے نقصان کی رقم کو پورا کرے گا، لیکن پاکستان مسلم لیگ(ن) اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔یہاں قابل ذکربات یہ ہے کہ شوکت خانم ہسپتال کے Auditors (Fergos)جو کہ دنیا کی سب سے بڑی اور بااعتماد آڈٹ فرم ہے،اس نے اس بات پر اعتراض کیوں نہ کیا اور کیوں اس Guaranteeکو صحیح مان لیا۔دنیا کی سب سے بڑی آڈٹ فرم جس کا کام ہی ان مشکل ٹرانزکشن کو Dealکرنا ہے، اس کی کوئی ٹھوس وجہ تو دیکھی ہوگی،جس کی وجہ سے اس Guaranteeکی پر شک نہ کیا۔اور اگر مسلم لیگ(ن) کو لگتا ہے کہ اس گارنٹی کی کوئی حیثیت نہیں تو وہ صرف شوکت خانم ہسپتال اور عمران خان کی ذات پر ہی کیوں الزامات لگا رہی ہے،جس فرم نے شوکت خانم ہسپتال کا آڈٹ کیا، اس کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی جارہی،جس سے لگتاہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

تیسرا مسئلہ Corporate Governance کا ہے۔پوری دنیا میں Corporate Governanceکی دوOpproachesہیں۔ایک Principle Based Approachاور دوسری Rules Based Approach۔دنیا کے بیشتر ممالک میں Pricciple Based Approachکو followکیا جاتا ہے اور اس Approachمیں کوئی لگے بندھے ضابطےنہیں ، بلکہ ان میں لچک ہے، تاکہ ہر ملک اور کمپنی اس کو اپنیjurisdiction اور Situationکے مطابق استعمال کرسکے۔ مسلم لیگ(ن) کے مطابقInvestmentایک ایسی Company میں کی گئی ،جس کا مالک شوکت خانم ہسپتال کے Endowment boardکا ممبر ہے اور ہسپتال کا سرگرم ڈونر بھی ہے ،جس کے کہنے پر یہ Investmentکی گئی۔یہاں پر کچھ حد تک Conflict of Interestتو پایا جاتا ہے، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ یہ Investment Decisionکسی فرد واحدکا نہیں ،بلکہ پورے boardکا تھا جس کے چار ممبر تھے اور عمران خان اس boardکے ممبر نہیں تھے، لہٰذا یہ کہنا غلط ہوگا کہ عمران خان کے کہنے پر اس شخص کے Influenceپر یہ Investmentکی گئی۔دوسرا جب بھی ایک کمپنی سرمایہ کاری کرتی ہے تو وہ ایک متوازنPortfolio کو Maintainکرتی ہے اور ساری کی ساری سرمایہ کاری ایک کمپنی میں لگانے کی بجائے مختلف کمپنیوں میں لگاتی ہے، تاکہ اگر کسی ایک سے نقصان بھی ہو جائے تو ساری رقم ڈوبنے کا خدشہ نہ رہے ،جس انڈومنٹ بورڈنے سرمایہ کاری کی، جب عمران خان اس کے ممبر ہی نہیں تو پھر مسلم لیگ(ن) کیسے کہہ سکتی ہے کہ عمران خان نے سٹہ کھیلا۔مسلم لیگ(ن) کو کامیاب اداروں کی گورننس پر انگلی اٹھا کر عوام کو گمراہ کرنے کی بجائے اپنی گورننس پر توجہ دینی چاہیے ، خصوصاً پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں پر جہاں پر آئے روز ڈاکٹروں کی ہڑتال سے کتنے ہی لوگ جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔یہ مسئلہ بھی گورننس کا ہی ہے اور شوکت خانم کے مسئلے سے کہیں زیادہ سنگین بھی۔

بہت سے ٹاک شوز میں عمران خان اور سی ای او شوکت خانم ہسپتال یہ کہتے نظر آئے کہ جو کچھ ہم پر الزام لگائے جارہے ہیں، وہ ہماری ہی ویب سائٹ سے لئے گئے ہیں اور ہماری فنانشل سٹیٹ منٹ میں سب کچھ عیاں ہے،جس کو ہر خاص و عام ہسپتال کی ویب سائٹ پر جا کر وزٹ کرسکتا ہے۔اگر ہم Corporate Governanceمیں جو Conflictنظر آیا، اس کو اور جو عمران خان کی بات کہ شوکت خانم کی انتظامیہ نے پوری Information Discloseکی ہے، اپنی Finacial Statments کو سمجھنے کے لئے انٹرنیشنل اکاﺅنٹنگ سٹینڈرڈ بورڈ (IASB)(جو کہ اکاﺅنٹینسی کے رولز بناتا ہے اور اس پر تفصیلی معلومات اور معاونت فراہم کرتا ہے اور دنیا کے زیادہ تر ممالک اس کے رولز کو Followکرتے ہیں) کے Related party disclosed as 29کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کمپنی اپنے کسی Close Relationوالے کے ساتھ رقوم کا لین دین کر سکتی ہے، اگر اسے پوری طرح Financial Statementsمیں Discloseکرے، مثلاً یہ بتائے کہ رشتے کی نوعیت کیا ہے؟ جو رقم دی گئی اس کی مالیت کیا ہے۔جو Transactionہوئی ، وہ کن شرائط وضوابط پر ہوئی۔اگر کوئی کمٹمنٹ کی گئی تو اس کی تفصیل اور جو گارنٹیاں دی گئیں ، ان کی تفصیل اگر کمپنی ان سب باتوں کو اپنی Financial Statementsمیں Discloseکردے تو ایسے Transactionکی جا سکتی ہے۔شوکت خانم کے کیس میں یہ سب معلومات فراہم کی گئی ہیں۔اب فیصلہ آپ نے کرناہے کہ کیا یہ واقعی ٹھیک الزامات ہیں یا پوائنٹ سکورنگ کی جارہی ہے۔

لگتا ہے کہ عمران خان کی ذات پر الزام بازی کے لئے کچھ نہیں ملا تو اب شوکت خانم کے ذریعے ان کوبدنام کیا جارہا ہے۔آخر میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ خدا کے لئے اس ملک کے ان اداروں کو،جہاں سے لاکھوں غریب لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں،سیاست کی نذر نہ کیا جائے، کیونکہ ہمارے ملک کی یہ روایت رہی ہے کہ اداروں کے بننے سے پہلے ہی ان کو ختم کردیا جاتا ہے .... ایک دوسرے پر الزام تراشی سے گریز کرکے ملک کی بہتری کے لئے سوچا جائے۔

مزید :

کالم -