سرکاری محکمے اور عوامی شکایات
سرکاری محکموں کی بنےادی ذمہ داری عوام کے مسائل حل کرنا اور ان کی شکاےات دور کرنا ہے۔ حکومت اس مقصد کے لئے سرکاری محکمے بناتی ہے، ان مےں سٹاف بھرتی کےا جاتا ہے اور قومی خزانے سے ان کی تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔ ےہ قومی خزانہ کےا ہے؟ ےہ دراصل عوام کے ادا کئے گئے ٹےکسوں سے ہی وجود مےں آتا ہے ۔ عوام بھی وہ جو شرےف ہوتے ہےں، قانون کی پاسداری کرتے ہےں اور اپنا ٹےکس ادا کرتے ہےں۔ سرکاری ملازمےن کو جو تنخواہ ادا کی جاتی ہے، وہ دراصل انہی قانون پسند عوام کی خون پسےنے کی کمائی ہوتی ہے اور مقصد ےہ ہوتا ہے کہ گڈ گورننس کا قےام عمل مےں لاےا جائے، عوام کے لئے آسانےاں پےدا کی جائےں اور ان کی شکاےات کا ازالہ کےا جائے۔ ےہ تو ان محکموں کا بنےادی مقصد ہوتا ہے، لےکن آپ اندازہ کرےں کہ اگر ےہ محکمے شکاےات کا ازالہ کرنے کی بجائے شکاےات کا اےک ذرےعہ بن جائےں، مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل پےدا کرنا شروع کر دےں، عوام کے لئے آسانےاں پےدا کرنے کی بچائے مشکلات پےدا کرےں تو پھر ےہ اندازہ لگانا مشکل نہےں ہونا چاہےے کہ جن مقاصد کے حصول کے لئے ےہ محکمے وجود مےں لائے جاتے ہےں، سٹاف کی بھرتی ہوتی ہے اور انہےں تنخواہ ادا کی جاتی ہے تو اس صورت حال مےں ےہ مقاصد کس حد تک پورے ہوتے ہےں۔
انگرےزوں کو لعن طعن اب بھی کی جاتی ہے، ان کی سازشوں کا ذکر بھی کےا جاتا ہے اور ان کی غلامی کے ادوار کی ےاد بھی دلائی جاتی ہے، لےکن جن بزرگوں نے انگرےزوں کادور دےکھا تھا، ان کی باتےں سن کر تو خوشگوار حےرت ہوتی تھی۔ ان بزرگوں کا کہنا تھا کہ اس دور مےں اس بات کا تصور بھی محال تھا کہ عوام کوئی شکاےت کرےں اور متعلقہ افسر اس شکاےت کا ازالہ نہ کرے۔ درخواست کو دبا لے ےاپھر درخواست آگے پےچھے کرنے کے لئے رشوت کی شکل مےں پےسے لگانے پڑےں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ رمضان المبارک کا بابرکت مہےنہ ہے۔ عبادات کے سلسلے مےں عوام کا جوش وجذبہ دےکھ کر دلی خوشی ہوتی ہے۔ مےڈےا کا دور ہے، وعظ کرنے والے اور اسلامی تعلےمات سے عوام کو روشناس کرانے کے متمنی حضرات اور عالم اپنی بات کہنے اور اسے عوام تک پہنچانے کے لئے ابلاغ عامہ کے جدےد ذرائع نہاےت ہی مہارت اور دلچسپی کے ساتھ استعمال کررہے ہےں، ٹےلی وےژن سے لے کر انٹر نےٹ اور سی ڈےز کے ذرےعے دےنی معلومات عوام تک پہنچائی جا رہی ہےں، لےکن اب اےک نےا رجحان بھی دےکھنے مےں آےا ہے ۔ ٹےلی وےژن چےنلوں پر اور پروگراموں مےں دےنی تعلےمات پر پہلے سے زےادہ زور دےا جا رہا ہے، بلکہ نےلام گھر کی طرز پر دےنی پروگراموں کا آغاز کےا گےا ہے۔ مذہبی عبادات، مثلاً روزے جےسی بابرکت عبادت کو موسےقی کے ساتھ ترانوں کی طرح پےش کےا جا رہا ہے، اور عبادات مےں بھی اےک طرح کا گلےمر دےکھنے مےں آ رہا ہے۔
کےمروں کے سامنے رقت آمےز دعائےہ مناظر دکھائے جاتے ہےں اور عبادات، مثلاً افطاری کو وےڈےو کےمروں کے ساتھ عوام کو دکھاےا جاتا ہے۔ اس حوالے سے حقےقت توکوئی عالم دےن ہی بتا سکتا ہے، کہ ان معاملات کی شرعی حےثےت کےا ہے کےونکہ عبادات تو انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمےان براہ راست تعلق کو مضبوط کرنے کا اہم ذرےعہ ہے اور خشوع و خضوع کے لئے تنہائی ضروری ہوتی ہے۔ اس لئے کچھ لوگ رات کے سناٹے مےں عبادت کرتے ہےں اور اس کا لطف بھی زےادہ آتا ہے۔ بات کرنے کا مقصد ےہ ہے کہ ان تمام عبادات کے باوصف اور دےنی رجحانات مےں اضافے کے ہوتے ہوئے بھی نہ تو سرکاری محکموں کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے اور نہ ہی ان محکموں کے ذمہ داران اپنی ذمہ دارےاں پہلے سے زےادہ احسن طرےقے سے ادا کرتے نظر آتے ہےں کےونکہ رمضان کے مہےنے مےں عوامی شکاےات کے ازالے مےں کوئی بہتری نہےں آتی۔ سرکاری محکموں کی کارکردگی مےں بہتری کی توقع کےا رکھی جائے، ہمارے دوسرے معاملات مےں بھی کوئی خاص بہتری نہےں آتی اور عبادات کی وجہ سے عوام مےں تقویٰ کی سطح مےں جو بہتری آنی چاہےے، اس کا اظہار ہمارے عوامی روےوں مےں نہےں ہوتا اور زےادہ تر برائےاں ہی جاری رہتی ہےں۔ ملاوٹ، ذخےرہ اندوزی، جھوٹ، ظلم، زےادتی اور رشوت وغےرہ مےں کوئی کمی نہےں آتی اور نہ ہی سرکاری ملازمےن عوامی مسائل حل کرنے مےں پہلے سے زےادہ دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہےں۔
پاکستان مےں عجےب صورت حال ےہ ہے کہ آپ کوئی شکاےت درج کرائےں ، کسی بھی مسئلے کی نشاندہی کرےں ےا کسی محکمے مےں کوئی درخواست جمع کرائےں، اس درخواست کا کوئی بھی اہلکار جواب دےنا پسند نہےں کرے گا، حالانکہ عوام کی شکاےات کا ازالہ کرنا اور قانون کے مطابق فےصلے کرنا سرکاری اہلکاروں کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے بہت سے اےسے فےصلے موجود ہےں، جن مےں قرار دےا گےا ہے کہ سب عوامی شکاےات کا ازالہ کرنا اور قانون کے مطابق فےصلے کرنا سرکاری اہلکاروں کے بنےادی فرائض مےں شامل ہے، لےکن کوئی بھی سرکاری اہلکار اس بنےادی فرض کی انجام دہی کو ضروری خےال نہےں کرتا۔ درخواست ےا شکاےت پر احکامات جاری کرنا سرکاری اہلکاروں کی قانونی ذمہ داری ہے، لےکن اس قانونی ذمہ داری کو ادا کرنے کا پابند بنانے کے لئے عوام کو کےسے کےسے جتن کرنے پڑتے ہےں۔ رٹ درخواست پر عدالتےں احکامات جاری کرتی ہےں کہ درخواست کا فےصلہ قانون کے مطابق کےا جائے، جس سرکاری اہلکار کے خلاف رٹ کی جاتی ،ہے وہ اسے اپنی انا پر حملہ تصور کرتا ہے اور پھر قانون کے چرخے کو اس طرح گھماتا ہے کہ سائل بے چارہ حےران اور پرےشان دےکھتا رہ جاتا ہے۔
وطن عزےز کے کچھ شہری اس لحاظ سے خوش قسمت ہوتے ہےں کہ ان کے مسائل ےا شکاےات کا اعلیٰ سطح پر از خود نوٹس لے لےا جاتا ہے۔ پاکستان مےں اس وقت تک کسی کو انصاف نہےں مل سکتا جب تک اس کے مسئلے کا از خود نوٹس نہ لےا جائے.... جو اہلکار شکاےات کا ازالہ نہےں کرتے ےا درخواستوں پر مناسب کارروائی نہےں کرتے، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہےں کی جاتی، شاےد اےسا کوئی قانون ہی موجود نہےں ہے کہ، جو اہلکار عوامی شکاےات کا ازالہ نہ کرے ےاکسی درخواست کو سرد خانے مےں ڈال دے اور اس پر قانون کے مطابق احکامات جاری نہ کرے، اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اگر تمام ذمہ دار حضرات اور متعلقہ سرکاری اہلکاروں کو اس بات کا پابند بنا دےا جائے کہ وہ کسی بھی شکاےت ےا درخواست پر10 تا 15 دن کے اندر قانون کے مطابق احکامات جاری کرنے کے پابند ہوں گے ورنہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی تو ہو سکتا ہے کہ صورت حال مےں قدرے بہتری لائی جا سکے اور عوامی شکاےات کے حل مےں مدد ملے ورنہ قانون کے مطابق فےصلہ کرانے کے لئے بھی عوام چالےں پچاس ہزار روپے خرچ کرتے رہےں گے۔ ٭