استعفے.... اصل کہانی کیا ہے؟
پاکستانی سیاست میں استعفوں کی داستان بڑی پرانی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان جمہوری ادوار میں استعفوں کا کھیل زیادہ رچاتے ہیں، کیونکہ وہ ایک دوسرے کی کمزوریاں بھی جانتے ہیں اور اپنی قیمت بھی بخوبی جانتے ہیں۔ جرنیلی حکومت میں نہ سیاست دانوں میں مستعفی ہونے کا حوصلہ ہوتا ہے اور نہ ہی قیمت میں اضافے کا کوئی پہلو، کیونکہ جرنیلوں کو اپنے ساتھ کام کرنے والے سیاست دانوں کی طاقت کا بھی علم ہوتا ہے اور قیمت کا بھی۔ اسی لئے جنرل ضیاءالحق کا اسلامی دور ہو یا جنرل پرویز مشرف کا لبرل، تمام سیاست دان اپنی اپنی مقرر شدہ تنخواہ پر کام کرتے رہے اور دونوں جرنیلوں کا طویل دور حکومت استعفوں کے موسم کے بغیر ہی گزر گیا۔ موجودہ دور حکومت کا تو آغاز ہی استعفوں سے ہوا۔بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی ایک دوسرے کی محبت میں ایسے سر شار ہوئے کہ ایک دوسرے کے بڑے حریف ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ ملک اور قوم کی خدمت کے بلند بانگ دعوے کئے گئے، مگر ہم تیرہ شب پاکستانیوں کی ایسی قسمت کہاں؟ چند ہفتوں بعد ہی اصل معاملات شروع ہو گئے۔ مسلم لیگ کے وزراءاپنی وزارتوں سے مستعفی ہو گئے اور وہی پرانا جمہوری تماشا شروع ہو گیا، جس کی آگ میں پاکستانی عوام آج بھی جل رہے ہیں۔
اس کے بعد پاکستانی سیاست میں زرداری ڈاکٹرائن کا آغاز ہوا اور کل کے قاتل، دہشت گرد، بھتہ خور کہلانے والے مفاہمت کے موجودہ دستر خوان پر ایک ہو گئے ۔سب کے ماضی کی سلیٹ صاف اور شفاف قرار پائی ۔مفاہمت کی سیاست کے نام پر سب بھائی بھائی قرار پائے۔ بظاہر پاکستان کے دستر خوان پر ہر کوئی شریک تھا، مگر متحدہ کی سیاست کے اپنے ہی رنگ ڈھنگ ہیں۔ انہوں نے مفاہمت کی بے رنگ سیاست میں اپنے وزراءکے استعفوں سے رونق لگانا شروع کر دی، کبھی صوبائی وزارتوں سے استعفے تو کبھی مرکزی وزارتوں سے استعفے اور کبھی حکومتی اتحاد سے علیحدگی ....متحدہ اب ایک آزمودہ کار سیاسی جماعت کے روپ میں ڈھل چکی ہے ۔اس لئے اب 1988ءاور 1990ءکے بے نظیراور نواز شریف والے ادوار میں کی جانے والی غلطیوں کی طرح اپنے استعفے اور اپنی ناراضگیوں کو آخری حد تک نہیں لے کر جاتی....بس نرخ بالا کن اور ناراضگی ختم.... کبھی کشمیر میں الیکشن کے نام پر ، کبھی سندھ میں کمشنری نظام کے نام پر تو کبھی ذوالفقار مرزا سے محبت کے نام پر جتنی جلدی استعفے آئے ،اتنی ہی جلدی استعفے واپس اور عوام کے نام پر حکومتی اتحاد بھی قائم رہا اور مفاہمتی سیاست بھی جاری و ساری۔
کچھ عرصہ قبل سونامی کے نام پر بھی حکومت اور حزب اختلاف میں موجود ممبران اسمبلی نے استعفوں کے ذریعے تبدیلی کا نعرہ بلند کیا ،لیکن جیسے جیسے موسم گرم ہوا ،سونامی کے نام پر تبدیلی کا طوفان کچھ تھم سا گیا ہے ۔موسم تبدیل ہو گیا ہے یا طوفان بلند کرنے والوں کے اشارے تبدیل ہو گئے ہیں۔ کچھ عرصے تک صورت حال واضح ہو سکے گی، لیکن اس بار ایک طرف ماہ رمضان کا آغاز ہوا اور دوسری طرف استعفوں کا موسم۔ رحمن ملک کے بلا مقابلہ سینیٹر منتخب ہونے اور ان کو فوری طور پر قانونی سینیٹر بنانے کی خاطر سینٹ کا اجلاس کیا طلب کیا گیا ،استعفوں کا موسم شروع ہو گیا۔ متحدہ والے تو ایسے اعلانات گزشتہ ساڑھے چار سال سے کرتے ہی رہتے ہیں ،لیکن اس بار اے این پی کی باسی کڑھی میں بھی اُبال آگیا ہے ۔اچانک انہیں اپنے صوبے میں عوام کے خلاف وفاق کی نا انصافی بھی نظر آگئی اور وفاقی حکومت کی جانب سے اپنی ناقدری بھی.... موسم اور منظر کی ممکنہ تبدیلی اور آئندہ انتخابات میں عوام کو بےوقوف بنانے کے اے این پی کے اس نسخے سے اقتدار کے عشاق مسلم لیگ (ق) کے وزرائے کرام کو بھی جوش آیا اور انہوں نے بھی بریکنگ نیوز کے طور پر اپنے استعفے چودھری شجاعت حسین کو پیش کر دئیے۔
ظاہر ہے چودھری صاحب ان استعفوں پر مٹی ڈالنے کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں، لیکن ”وڈے چودھری“ اور ”نکے چودھری“ نے ان استعفوں کی فائل کے ہمراہ صدر آصف علی زرداری سے ملاقات ضرور کی اور ان استعفوں کے وزن پر اپنی پارٹی اور وزرائے کرام کے ذاتی مفادات کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔اس طرح ماہ رمضان کی برکات کے باعث مسلم لیگ (ق) کے اراکین کو کم محنت میں زیادہ وصولی ہو گئی....تازہ ترین استعفے، جس نے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کیا ،وہ ہے ذوالفقار علی کھوسہ ، سینئر مشیر حکومت پنجاب کا استعفا.... موصوف گزشتہ ساڑھے چار سال سے پورے خاندان کے ساتھ اقتدار کے مزے لے رہے ہیں ۔ڈیرہ غازی خان میں کانسٹیبل اور پٹواری سے لے کر اعلیٰ ترین عہدوں پر تعیناتی کھوسہ ہاﺅس کی پرچی کے ذریعے ہی ہوتی تھی اور پرچی پر تعیناتی حاصل کرنے والے بعد میں پرچی دینے والوں کا بھی دامے درمے اور سخنے بھر پور خیال رکھتے تھے۔ موصوف کے سب سے چھوٹے صاحبزادے چند ہفتوں کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب بھی بنے اور ان چند ہفتوں میں جس اعلیٰ ترین کارکردگی کا مظاہرہ چھوٹے سردار کی جانب سے کیا گیا،اس کا ذکر ملتان، لودھراں اور ڈیرہ غازی خان سے لے کر دبئی تک کی محافل میں ہوتا رہتا ہے۔
وزارت اعلیٰ کے بعد بلدیات کی وزارت میں چھوٹے سردار کے کارنامے نہ پنجاب حکومت سے پوشیدہ ہیں اور نہ ہی عوام سے۔ ڈیرہ غازی خان میں کمیشن اور ناجائز آمدنی میں بندر بانٹ پر ذوالفقار کھوسہ کے صاحبزادوں کے درمیان جھگڑوں کے قصے بھی جنوبی پنجاب میں عام ہیں۔ ایک بھائی کی جانب سے کسی افسر کی تعیناتی اور دوسرے کی جانب سے اس کا تبادلہ بھی معمول کی بات چلی آرہی ہے۔ چھوٹے سردار اقتدار میں دیگر مشاغل کے ساتھ شادیوں کے بھی رسیا ہو چکے ہیں۔ آخری شادی سپنا نامی ڈانسر سے کی تھی اور ڈانسر بیوی سے متاثر ہو کر چھوٹے سردار خود بھی اپنی بیوی کے ساتھ رقص میں کسی قدر مہارت رکھتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں پر ملک بھر کے عوام کئی مرتبہ اس کو دیکھ چکے ہیں ۔سپنا ڈانسر کے لواحقین چھوٹے سردار پر قتل کا الزام لگاتے ہیں اور اس حوالے سے پنجاب ہائی کورٹ کے حکم پر قتل کا مقدمہ بھی درج ہو چکا ہے ،لیکن سپنا کے لواحقین مبینہ طور پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ نہ پولیس چھوٹے سردار کو گرفتار کرتی ہے اور نہ ہی تفتیش۔ دوسری طرف سردار ذوالفقار کھوسہ کو یہ گلہ ہے کہ اس مقدمے کو فوری طور پر ختم نہیں کیا جا رہا۔ گزشتہ ساڑھے چار سال میں اقتدار کے مزے جس طرح کھوسہ خاندان نے لئے ہیں، اس کی مثال پاکستان میں کم ہی ہو گی۔ والد سینیٹر، ایک بیٹا ممبر قومی اسمبلی ،دو بیٹے ممبران صوبائی اسمبلی ،خود سینئر مشیر اور بیٹا صوبائی وزیر ،غرض اقتدار کاہر دروازہ کھوسہ ہاﺅس کے آنگن میں کھلتا ہے۔
شنید یہ ہے کہ کھوسہ ایکسپریس اب کسی نئے سٹیشن پر سٹاپ بنانا چاہتی ہے ۔شاید آصف علی زرداری صاحب کے آئندہ ملک بھر میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنانے کے دعوے سے متاثر ہو گئے ہیں، کیونکہ ایک طرف ڈیرہ غازی خان میں پیپلز پارٹی کا میدان خالی ہے۔ دوسری طرف صاحبزادے سیف الدین کھوسہ کی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر آیت اللہ درانی سے نئی رشتہ داری پیپلز پارٹی اور کھوسہ خاندان میں نئے مراسم کا باعث بن رہی ہے یا پھر یہ سارا مسئلہ صرف اپنی نئی قیمت کے تعین کا مسئلہ ہے۔ بات کوئی بھی ہو ،مسئلہ صرف اور صرف کھوسہ خاندان کی ذات کا ہے ،کیونکہ جنوبی پنجاب تو ایک طرف، ڈیرہ غازی خان کے عوام کھوسہ خاندان کے لئے اقتدار کے حصول میں ایندھن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سے قبل کھوسہ سردار ،پرویز مشرف کے دور حکومت میں مسلم لیگ اور نائب نظامت کے مزے ایک ساتھ بھی لیتے رہے ہیں ،ابھی رمضان کا پہلا عشرہ گزرا ہے، اور سیاست میں استعفوں کا بازار گرم ہے۔ خود پیپلز پارٹی کے وزراءاور پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئر مین بھی استعفوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔یہ سب آنے والے انتخابات کی صف بندی ہے یا کوئی اور تماشا لگنے والا ہے۔
سو رنگ تماشے تکدے اکھیاں نئیں رجیاں