ڈرون حملے اور پاک امریکہ سٹرٹیجک تعلقات (1)
نیک محمد وزیر وہ پہلا عسکریت پسند تھا جسے ہلاک کرنے کے لئے امریکی سی آئی اے نے 18جون 2004ءکو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کا آغاز کیا۔ جنوبی وزیرستان میں ہونے والے اس اولین ڈرون حملے میں7افراد ہلاک ہوئے ۔سی آئی اے کے مطابق ہلاک شدگان میں تین شدت پسند اور چار عام شہری تھے۔2004ءکے بعد 2005ءمیں تین ڈرون حملے ہوئے جن میں پانچ شدت پسند(سی آئی اے کے اعدادوشمار کے مطابق) چھ عام شہری اور چار نامعلوم افراد ہلاک ہوئے۔ اسی طرح 2006ءمیں ہونے والے دو ڈرون حملوں میں ایک جنگجو اور93عام شہری مارے گئے۔2007ءمیں ہونے والے چار ڈرون حملوں میں51شدت پسند اور12دیگر نامعلوم افراد ہلاک ہوئے۔2008ءمیں اگرچہ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے نو سالہ اقتدار کا سورج غروب ہو گیا اور18فروری2008ءکے انتخابات کے بعد ایک بار پھر پیپلزپارٹی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئی، لیکن 2008ءسے2013ءکے دوران اس کے پانچ سالہ دور حکومت میں بھی ڈرون حملوں کا سلسلہ نہ رُک پایا۔ 2008ءمیں36بار امریکی سی آئی اے نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈرون داغے جس کے نتیجے میں223عسکریت پسند، 28عام شہری اور47نامعلوم افراد ان حملوں میں مارے گئے۔ 2008ءمیں ہلاک ہونے والے افراد کی کل تعداد 298تھی۔
نومبر2008ءکے امریکی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جان مکین ڈیمو کریٹ پارٹی کے سیاہ فام بارک حسین اوباما کے مقابلے میں اس لئے ناکام ہو گئے کیونکہ امریکی عوام کا خیال تھا کہ ری پبلکن صدر جارج واکر بش کے دور میں شروع ہونے والی دہشت گردی کی جنگ کی بدولت خود امریکہ کا خاصا نقصان ہو چکا ہے، اس لئے انہیں اب ایسا صدر درکار ہے، جو انہیں اس دلدل سے نکال سکے۔ 2008ءکے انتخابات کے دوران امریکی صدر بارک حسین اوباما اس عزم کا اظہار کرتے دکھائی دیئے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ سے امریکہ کو جلد نکالنے کے خواہش مند ہیں، لیکن جنوری2009ءمیں قصر سفید کا مکین بننے کے بعد انہوں نے یہ موقف اپنایا کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن معرکہ لڑنے جا رہے ہیں جس کے بعد افغانستان اور عراق سے امریکی افواج کے انخلاءکا عمل شروع ہو جائے گا۔
یہی وجہ تھی کہ2009ءمیں پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں میں شدت آ گئی۔2009ءمیں ہونے والے54ڈرون حملوں سے متعلق امریکہ نے یہ دعویٰ کیا کہ ان میں387 عسکریت پسند ہلاک ہوئے، اِن حملوں میں (امریکی اعداد و شمار کے مطابق)70عام شہری اور 92نامعلوم افراد بھی ہلاک ہوئے۔ اگرچہ بہت سے پاکستانی اور امریکی دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پہلے جنرل پرویز مشرف اور بعد میں پیپلزپارٹی کی حکومت اور امریکہ کے درمیان ڈرون حملوں کے حوالے سے مفاہمت موجود تھی، جس کی بدولت ان کا سلسلہ جاری رہا۔2010ءکے اوائل میں وکی لیکس نے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے حوالے سے انکشاف کیا تھا کہ ان کا امریکیوں سے یہ کہنا تھا کہ آپ (امریکی) ڈرون حملوں کا سلسلے جاری رکھیں،ہم پارلیمنٹ میں رسمی احتجاج کرتے رہیں گے، لیکن اس کے باوجود عوام کی اکثریت نے ڈرون حملوں کو ملک کی خود مختاری کے منافی سمجھتے ہوئے ان کے خلاف احتجاج جاری رکھا ہے۔2010ءمیں ہونے والے 122 ڈرون حملوں میں 788عسکریت پسند،16عام شہری اور45نامعلوم افراد ہلاک ہوئے، ہلاک ہونے والے کل افراد کی تعداد849تھی۔
2مئی2011ءکو ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت امریکہ کے لئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بڑی کامیابی ثابت ہوئی جس کے بعد اوبامہ انتظامیہ نے افغانستان سے فوجی انخلاءکے لئے 2014ءکی حتمی ڈیڈ لائن کا اعلان کر دیا۔ اِسی سال نومبر کے مہینے میں امریکی افواج کا انخلاءعراق سے ممکن بنایا گیا۔ عراق سے امریکی افواج کے انخلاءکا جواز بتاتے ہوئے سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ عراق میں القاعدہ کا قلع قمع کر دیا گیا ہے۔ اب امریکہ کی ساری توجہ افغانستان پر مرکوز ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی سی آئی اے کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد پاکستان کو جس شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا وہ اس سے اب تک مکمل طور پر باہر آنے میں کامیاب نہیں ہو پایا اور اوباما انتظامیہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پر اس بات کے لئے دباﺅ بڑھانا شروع کر دیا کہ وہ عسکریت پسندوں کے مکمل خاتمے تک قبائلی علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشن کا آغاز کرے جو ظاہر ہے پاکستان کے لئے ایک نہایت مشکل امر تھا۔ دوسری جانب امریکہ نے ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی تھمنے دیا۔ 2011ءمیں ہونے والے 73ڈرون حملوں میں 420 عسکریت پسند،62عام شہری اور35نامعلوم افراد جاں بحق ہو گئے۔ نامعلوم افراد سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جن کی شناخت نہیں ہو پاتی، بہت سے دفاعی تجزیہ کار اس خیال کے حامی ہیں کہ سی آئی اے جن عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کے لئے ڈرون حملہ کرتی ہے ان کے علاوہ جاں بحق ہونے والے دیگر افراد عام شہری ہوتے ہیں، لیکنCollateral Damage کم سے کم ظاہر کرنے کے لئے وہ اکثر شناخت ہو جانے والے عام شہریوں کو بھی نامعلوم افراد کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے۔ سی آئی اے کے لئے اعداد و شمار کےمطابق جون 2004ءسے اگست2013ءکے دوران پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملو کے نتیجے میں عسکریت پسندوں اور عام شہریوں کے علاوہ270 ایسے افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی۔ نیو امریکہ فاﺅنڈیشن کے اعداد و شمار بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ سی آئی اے کی جانب سے ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی تعداد ان کی اصل تعداد سے کہیں کم ظاہر کی گئی ہے۔
(جاری ہے) ٭