پارٹی سربراہو ں کی مداخلت سے صوبائی خودمختاری خطرے میں ہے،پیر اعجاز
لاہور( خبر نگار خصوصی)جمعیت علما پاکستان کے مرکزی صدر پیر اعجاز احمد ہاشمی کی زیر صدارت مجلس شوریٰ کے اجلاس میں قراردیا گیا کہ پارٹی سربراہوں کی صوبائی حکومتوں کے امور میں مداخلت کے باعث صوبائی خود مختاری خطرے میں ہے۔صرف پنجاب کا وزیر اعلٰی خود مختار نظر آتا ہے، جبکہ بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخواہ کے وزرائے اعلیٰ کو ریموٹ کنٹرول سے پارٹی سربراہ چلا رہے ہیں۔ جوکہ افسوسناک غیر جمہوری رویہ ہے،اسے ختم کرکے اچھی سیاسی روایات پیدا کی جائیں اور وزراء اعلیٰ کو اختیارات دیے جائیں۔ مختلف قراردادوں کی منظوری دیتے ہوئے مجلس شوریٰ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے سندھ کے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی خوش آئند ہے کہ پڑھے لکھے اور متحرک نوجوان کو منصب دیا گیا ہے،اب انہیں اختیارات بھی دیے جائیں۔ دوبئی اور بلاول ہاوس سے حکومت چلانے کی عادت ختم ہونی چاہیے۔ دوسری طرف خیبر پختونخواہ کی حکومت بنی گالا سے اور بلوچستان حکومت اسلام آباد سے چلائی جارہی ہے جوکہ جمہوری روایت نہیں ہے۔صرف پنجاب حکومت واقعی لاہور سے چلائی جارہی ہے اور وزیر اعلیٰ خود مختار ہیں، جس کی وجہ بھی سمجھ آتی ہے کہ شہبازشریف پارٹی سربراہ کے بھائی ہیں۔ ایک اور قرارداد میں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ کشمیری پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ لیکن حکومت پاکستان کی وکالت نہیں کررہی۔موجودہ پارلیمانی کمیٹی کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں ناکام رہی ہے، نئی کمیٹی تشکیل دی جائے،جو تمام ممالک کے وزارت خارجہ کو مسئلہ کشمیر پر بریفنگ دے اور کشمیری یورپی ممالک میں احتجاجی مظاہرے بھی کریں۔اجلاس میں قراردیا گیا کہ پانامہ لیکس نیا سکینڈل نہیں، اسے امریکہ نے عالمی سازش کے تحت بھارتی ایجنسی را کے اہلکار کل بھوشن کی گرفتاری سے توجہ ہٹانے کے لئے شوشہ چھوڑا ہے۔اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ بھارتی اہلکار سے ہونے والی تحقیقات منظر عام پر لائی جائیں اور عالمی سطح پر میڈیا کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کے بھارتی کرتوت بے نقاب کئے جائیں۔ نیز کل بھوشن کے انکشافات کی کی روشنی میں دہشت گردی کے نیٹ ورک میں ملوث جماعتوں کی تحقیقات کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اجلاس میں سارک وزراداخلہ کی کانفرنس میں پاکستان کے موقف کو سراہا گیا۔جے یو پی کے اجلاس نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلیوں کے منظور کردہ تحفظ حقوق نسواں بل کو اسلام اور معاشرے کی اقدار سے متصاد م قراردیتے ہوئے انہیں مسترد کردیا اور مطالبہ کہا کہ حکومت ترامیم کے گورکھ دھندے میں پڑنے کی بجائے اسے مکمل طور پر واپس لے۔ اور نئے بل کی تیاری کے لئے چاروں مسالک اہل سنت بریلوی، شیعہ ،دیوبندی اور اہل حدیث کے وفاق المدارس سے رہنمائی حاصل کرے۔اس بات پر بھی زوردیا گیا کہ حکومت من پسند افراد کی بجائے ، تمام مکاتب فکر کی قابل ذکر نمائندہ مذہبی جماعتوں سے قوانین شریعہ پر عبور رکھنے والے علما کو کمیٹیوں میں شامل کرے۔ اجلاس نے مہنگائی بیروزگاری کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اثر روزمرہ کی اشیا اور پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی نظر آنا چاہیے۔ مجلس شوریٰ کے شرکا نے واضح کیا کہ ناقص حکومتی پالیسیوں کے باعث کسان کے لئے کھیتی باڑی کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ زرعی ادویات اور کھاد کی قیمتوں میں اضافے کے تناسب سے حکومت کاشتکار کی فصل کی قیمت کے تعین اور اسے خریدنے میں ناکام رہی ہے۔پہلے ہی چاول ، گنے اور دیگر اجناس کی قیمتوں کے تعین میں ناکام حکومت کسانوں کو مطمئن کر سکی اور نہ ہی ان کی محنت کا پھل دے سکی ہے۔ گندم کی فصل میں بھی کسان کو اس کی محنت کا معاوضہ مل سکا اور نہ ہی اس سے پوری گندم خریدی گئی ۔جس پر عوام میں تشویش پائی جاتی ہے۔