انسانیت کے خلاف کئے گئے شرمناک جرم پرآ ج بھی ہر آنکھ آٹھ آٹھ آنسو رونے پر مجبور
ٹوکیو (ڈیلی پاکستان آن لائن)جاپانی شہر ہیروشیما میں ایٹم بم گرائے جانے کے تہتر برس مکمل ہونے پر خصوصی یادگاری تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران چھ اگست 1945 کو ایٹمی حملے نے ہیروشیما میں تباہی مچا دی تھی۔
جرمن نیوز ایجنسی کے مطابق جاپانی شہر ہیروشیما میں پیر چھ اگست کو منعقد ہوئی ایک یادگاری تقریب میں وہاں ایٹم بم کی تباہی کاری کی وجہ سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو یاد کیا گیا اور ساتھ ہی زور دیا گیا کہ دنیا سے ان ہتھیاروں کے خاتمے کو ممکن بنایا جانا چاہیے۔ یہ تقریب ایک ایسے وقت پر منعقد کی گئی، جب یہ امید کی جا رہی ہے کہ شمالی کوریا اپنا جوہری پروگرام ترک کر دے گا۔
ہیروشیما میں منعقد ہونے والی سرکاری یادگاری تقریب میں میئر کازومی ماتسوری نے اپنے خطاب میں ٹوکیو میں ملکی حکومت پر زور دیا کہ وہ دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کی خاطر زیادہ فعال کردار ادا کرے۔ انہوں نے تقریب کے شرکاءسے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ”ذرا سوچیے کہ اگر آپ کے گھر والے اس دن (چھ اگست سن 1945 کو) یہاں ہوتے۔“
چھ اگست 1945 کو امریکی جہاز نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کولٹل بوائے کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
ماتسوری نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ کچھ ممالک قوم پرستی کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو جدید بنانے کی کوششوں میں ہیں اور اس وجہ سے سرد جنگ کے بعد ختم ہونے جانے والی کشیدگی ایک مرتبہ بھر بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کو ختم کر دیا جائے۔
امریکہ کی طرف سے جاپانی شہر ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم کی وجہ سے ایک لاکھ چالیس ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ اس کے تین دن بعد جاپان کے ایک اور شہر ناگاساکی پر کیے گئے ایٹمی حملے کے نتیجے میں 70 ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ ان حملوں کے بعد جاپان نے ہتھیار پھینک دیے تھے، جس کے باعث دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ممکن ہو سکا تھا۔
ہیروشیما میں ہونے والی اس یادگاری تقریب میں پچاس ہزار افراد شریک ہوئے، جن میں اس شہر کے باسیوں سمیت اٹھاون ممالک کے نمائندے اور امریکی سفیر ولیم ہیگرٹی بھی شامل تھے۔ اس موقع پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔
اس تقریب میں جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی طاقت کے حامل ممالک اور دیگر ممالک میں اختلافات بڑھ رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے عہد کیا کہ وہ ان اختلافات کو ختم کرانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کریں گے۔