اور شہہ رگ کٹ گئی !!!
’’ اور شہہ رگ کٹ گئی‘‘ یہ الفاظ جتنے ایک محب وطن پاکستانی کےلیے کرب ناک ہیں , اتنے ہی میرے لیے بھی ہیں ۔ 5 اگست 2019 کو بھارت میں برسراقتدار انتہا پسند ہندو جماعت " بھارتیہ جنتا پارٹی " نے اپنے انتخابی منشور پر عمل کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کو خصوصی حثیت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 A کو آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کرکے ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی صوبے کا درجہ دے دیا۔ اس کےعلاوہ وادی کو لداخ اور جموں و کشمیر میں بھی تقسیم کردیاگیا اور غیرریاستی باشندوں کو وادی میں جائیداد کی خریدوفروخت کی اجازت دے کرجموں وکشمیرمیں ہندوؤں کی آبادکاری کی راہ ہموارکردی ۔
بھارت کےعزائم اب کھل کرسامنےآچکےہیں ۔ بھارت جموں و کشمیرمیں اسرائیل کی طرزپرغیرمسلم آبادیاں بساکرمسلم اکثریت کواقلیت میں بدلنےکی منصوبہ بندی کرچکاہے۔ بھارت اب فلسطینیوں کی طرح کشمیریوں کوانہیں ان ہی کےمادروطن میں اجنبی اورگمنام کرنےکا خواہاں ہے۔کشمیری عوام گزشتہ 70 سالوں سےتحریک آزادی کی راہ میں 90 ہزارسےزائد جانوں کا نذرانہ پیش کرچکےہیں ۔ کشمیریوں کے مالی نقصانات اس کےعلاوہ ہیں اوران کی عزت وآبروکچھ بھی قابض 7 لاکھ بھارتی افواج کے ہاتھوں محفوظ نہیں ۔ اب صورتحال مزید ابترہونےوالی ہےکیونکہ خصوصی حثیت میں کشمیرکےامورِدفاع , خارجہ اورکرنسی بھارت کےپاس تھے , باقی ماندہ اختیارات ریاست جموں وکشمیرکی حکومت کےپاس تھے۔ مگراب صحت , تعلیم اور پولیس ڈیپارٹمنٹ سمیت کئی دیگراہم محکموں پردلی سرکارقابض ہوکرکشمیری مسلمانوں کا جینا مزید دوبھرکردےگی ۔ صرف اتنا ہی نہیں ریاست جموں وکشمیرکی سول سروس بھی بھارتیوں کی بھرتیاں ہونےلگیں گی ۔
واضح رہےکہ ریاست جموں وکشمیر اقوامِ متحدہ کےایجنڈے پرپاکستان اوربھارت کےدرمیان متنازعہ علاقہ ہے اورجس کے مستقبل کا فیصلہ کرنےکا اختیارصرف کشمیری عوام کے پاس ہےاور اقوامِ متحدہ اپنی قراردادوں کےمطابق کشمیرمیں رائےشماری کروانے کی ذمہ دارہےمگرافسوس 70سال گزرنےکےباوجود بھارتی ہٹ دھرمی کےباعث کشمیری عوام "حق خودارادیت " سےمحروم رہے جوان کا بنیادی حق ہے۔ جہاں تک کشمیرکی خصوصی حثیت میں ردوبدل کا سوال ہےتووہ بھارتی پارلیمنٹ اس وقت تک نہیں کرسکتی , جب ریاست جموں وکشمیر کی اسمبلی منظور نہ کرے ۔ جبکہ اس وقت مذکورہ اسمبلی موجودنہیں ہے ۔ اوریہ خلاء شایداسی سازش کو انجام دینےکےلیے تقریباً گزشتہ ایک برس سے دانستہ چھوڑاگیاہے۔ لہٰذا بھارتی پارلیمنٹ کی کارروائی قانوناً مشکوک بھی ہے ۔
بھارتی حزبِ اختلاف کانگریس اورکانگریسی کشمیری لیڈرز فاروق عبداللہ اورعمرعبداللہ اسےبھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کرناچاہتےہیں ۔ یہ ہی وجہ ہےکہ عمرعبداللہ کو گرفتار کرلیاگیا جبکہ فاروق عبداللہ 6 اگست کی رات نئی دلی سے پراسرارطورپرلاپتا ہوگئے۔ بہرحال 7اگست کویہ انڈین سپریم کورٹ میں چیلنج کردیاگیا ۔دوقومی نظریے کونہ ماننےاورقیام پاکستان کی مخالفت کوغلطی تسلیم کرنےوالی محبوبہ مفتی بھی گرفتارہیں، یہ لوگ تو بھارت وفادارسمجھےجاتےہیں تو پھر دنیا جان لے کہ حریت رہنماؤں اورحریت پسندکشمیری عوام کے ساتھ مودی سرکارکیا سلوک کرےگی ۔ حریت لیڈریاسین ملک جودلی کی تہاڑجیل کے ڈیتھ سیل میں قید ہیں , ان کےمتعلق اطلاعات پرتشویش ہے ۔ ریاست جموں وکشمیرکا دنیاسے مواصلاتی رابطہ منقطع کردیاگیا ہےاوربھارت تازہ دم فوجی مسلسل کشمیرمیں بھیج رہاہے۔ اللہ ہی بہترجانتاہےکہ نہتےکشمیری عوام پر اس وقت کیا بیت رہی ہے؟ اب پاکستان کے پاس زیادہ آپشنز نہیں بچےہیں ۔ فرض کرلیں کہ اگربھارت کےخلاف کوئی قرارداد سلامتی کونسل میں ویٹوہوجاتی ہے ،تب ہماری حکومت کےپاس سفارتی ذرائع سے کشمیرکی خصوصی حثیت ختم کرنے کےبھارتی فیصلے پراثراندازہونامشکل ہوجائےگا ۔
فرض کیا کہ ہم سلامتی کونسل میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں توبھارت پہلے کون سا عالمی برادری کی رائےکا احترام کرتاہے ؟ ابھی گزشتہ ہفتے وادی نیلم میں کلسٹربم برسا کربھارت جنیوا کنونشن کی دھجیاں اڑا چکاہے اور کیابگاڑ لیا امن کےٹھیکیداروں نےبھارت کا؟ سلامتی کونسل 70سال میں کشمیرسے متعلق اپنی قرادادوں پربھارت سےعمل کروانے میں ناکام ہے ۔ واضح رہے کشمیرکی خصوصی حثیت ختم کرنا کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔
سفارتی محاذ پر امکانات کا سرسری جائزہ لینےکےبعد اسلام آبادواپس آتےہیں۔ وزیراعظم عمران خان ملٹری آپشن کا فیصلہ کا فیصلہ لینےسےقاصرنظرآتےہیں کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی قوتیں ہیں،اگرمحدودپیمانےپرکشمیرمیں جنگ چھڑجائےتوبھی صورتحال کسی بھی وقت سب کے کنٹرول سے باہرہوسکتی ہے۔محدود جنگ کے روایتی اورغیرروایتی جنگ میں بدلنےکا امکانات موجودہیں،ہمارے بھولےبھالےوزیراعظم جس نئےپلوامہ اور اس کے آزاد کشمیرپر جس ممکنہ حملےکے منتظرہیں،ایسا کوئی امکان نہیں کہ بھارت ازخود آزاد کشمیر پر حملہ کرے۔ پس ہمارےپاس اب دوآپشن رہ جاتے ہیں،اول یہ کہ کشمیرمیں بغاوت پھیلتے ہی پاکستان ازخود مقبوضہ کشمیرپربالکل اسی طرح حملہ کردے , جیسابھارت نے1971 میں کیاتھا ۔ دوسرا آپشن یہ ہے جنرل ضیاء الحق کی ’’جہادِ کشمیرپالیسی‘‘ کواپنالیاجائے , جس کےنتیجےمیں بھارت خودآزاد کشمیرپرحملہ آور ہوگا ۔ دونوں صورتوں میں انجام پاک بھارت روایتی وغیرروایتی جنگ ہی ہے ۔ اب یہ عسکری قیادت پرمنحصرہےکہ وہ کون سا راستہ چنتی ہے۔بقول وزیراعظم عمران خان یہ دونوں راستے ٹیپوسلطان کے نقشِ قدم پرلےجاتےہیں ۔ تیسرا راستہ بہادرشاہ ظفرکاہےکہ اوآئی سی اوراقوام متحدہ میں جائیں اوروہاں سے روتے دھوتے اسلام آبادواپس لوٹ آئیں کہ ہمیں انصاف نہیں ملا اورخاموشی سےاپنی شکست اوربھارت کی فتح قبول کرلیں ۔
یقیناً پاکستانی عوام کی غیرت یہ گوارا نہیں کرےگی کہ 90 ہزار شہدائے کشمیر کے خون کا اتنا سستا سودا ہوجائے اور یہ عظیم تحریک آزادی خدانخواستہ قصہ پارینہ بن جائے۔ اس صورت میں ہماری آنےوالی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی لہٰذا ٹیپوسلطان کاراستہ اختیارکرلیا جائےتوبہترہے،موجودہ صورتحال میں وزیراعظم نے دوست ممالک سےروابط کیےہیں , جوبےحدضروری ہے ۔ خطےمیں کسی بھی ممکنہ بحران سے نمٹنےسےپہلے ہمیں دوست ممالک چین , ترکی , ملائیشیا اور سعودی عرب کواعتماد میں لیناچاہیئے۔ اس کے علاوہ بھارت فوراً سفارتی , تجارتی , ثقافتی اوردیگرروابط نہ صرف ختم کرنےچاہیں بلکہ بالعموم دوست ممالک اوربالخصوص مسلم ممالک کوبھی یہ ترغیب دینی چاہیےکہ وہ بھارت سے سفارتی اورتجارتی تعلقات پر نظرثانی کریں اور کوشش کرنی چاہیے کہ بھارت پردباوبڑھایا جاسکے اوراس کےلیےہمیں غیرروایتی خارجہ پالیسی فوراً اپنانا ہوگی ۔ امریکی صدر کو افغان امورمیں مدد کواب مسئلہ کشمیرکےمنصفانہ اورپائیدار حل سے مشروط کیاجائے،اگرامریکہ مقبوضہ جموں وکشمیرکےعوام کوحق خودارادیت دلانے میں مدد نہیں کرتا توپاکستان بھی افغان امورپرامریکہ کی معاونت سےہاتھ کھینچ لے۔ میں ایک مرتبہ پھرکہتی ہوں کہ افغانستان سےامریکہ کی واپسی سےقبل مسئلہ کشمیرحل ہونا ضروری ہے،اگرامریکہ افغانستان سےنکل گیاتووہ مسئلہ کشمیر پرپھر ویسی ہی ثالثی کرےگا , جیسے "گولان پہاڑیاں "اسرائیل کودلاکرکی ہے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔