رکھی، سُکی کھا۔ فقیرا تے گھڑے دا پانی پی!
سنتے سنتے، بہر سے ہو گئے کہ ملک کا معاشی استحکام، سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ کہنے والے اب بھی یہی کہتے ہیں لیکن خود ہی عمل نہیں کرتے حالات حاضرہ یا معروضی حالات بھی عدم استحکام والے ہی ہیں۔ معیشت تو صداسے ادھار اور گرانٹس کی مرہون منت ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے ملک کے ”ایلیٹ“ جسے اب اشرافیہ کہنے لگے ہیں امیرا ور یہ ملک غریب ہے۔ یوں بھی سڑکوں پر چلتی گاڑیاں ہی دیکھیں تو یقین نہیں آتا کہ اس ملک کی نصف سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے اور یہ غربت کی لکیر کیا اور کہاں سے شروع ہوتی ہے، اس کا بھی ابھی تک حتمی فیصلہ تو نہیں ہو سکا، لیکن غربت کی بات ضرور ہوتی ہے، یہ ہمارا تجربہ ہے کہ کھانے کی میز پر اکیس قسم کے پکوانوں کی موجودگی میں کھانے والے بڑی ہمدردی سے بھوکوں کے لئے کچھ نہ کئے جانے کی باتیں کرتے ہیں۔ جی! نہیں کرتے تھے۔ اب تو شاید یہ بھی نہیں کرتے، اگر یقین نہیں تو آج کی پوری اپوزیشن کو دیکھ لیں، جسے ملک کی سلامتی خطرے میں نظر آتی ہے۔ معاشی حالت دگرگوں کہی جاتی ہے اور نیب کی کارروائی انتقام ہے۔ لیکن یہ حضرات بھی غریب کی روٹی، دال کی بات نہیں کرتے جس کا حصول آج مشکل ترین بنا دیا گیا ہے۔
یہ سطور گواہ ہیں کہ ہم نے ہمیشہ غیر جانبداری سے لکھا۔ اپنی پسند ناپسند کو حقائق توڑنے موڑنے کی طرف نہیں رکھا۔ جو درست سمجھا لکھا۔ ہماری تنقید کا نشانہ ہمارے پیارے ہی زیادہ بنے لیکن اب جو حالات ہیں وہ یقیناً گھبرانے ہی نہیں سر پھوڑنے والے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان 22 سالہ ”جدوجہد“ کے نتیجے میں اپنی خواہش کے مطابق وزیر اعظم بن گئے۔ وہ اس سے پہلے کہتے ”میں وزیر اعظم بنا تو یہ کروں گا، وہ کروں گا“ وہ بن گئے تو کہتے ہیں ”گھبرانا نہیں“ پیشہ صحافت پر انتہائی برا وقت ہے۔ ہزاروں بے روز گار ہو گئے جو بچ گئے وہ معاشی طور پر مردہ ہیں کہ ان کی تنخواہیں، ٹکڑے ٹکڑے کر کے کاٹ کر اتنی کر دی گئی ہیں کہ سر ڈھانپیں تو پیر ننگے، اگر پیروں پر توجہ دیں تو سر کیا، سینہ نظر آنے لگتا ہے۔ عمران خان صاحب کو دیہاڑی داروں اور غریبوں کی بہت فکر ہے اور یہ فکر ایسی ہے کہ وہ جب بھی مہنگائی کو کم کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اشیاء اور مہنگی ہو جاتی ہیں اور اب تو روٹی بھی اتنی مہنگی ہو گئی کہ عام آدمی تین سے ایک پر آ گیا۔ اگرچہ تھوڑا عرصہ پہلے وہ دو تک ہی پہنچا تھا۔
جو بات ہماری عقل اور سمجھ سے باہر ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ مافیا کی سرکوبی کا حکم دیتے ہیں، تبھی مارکیٹ میں اس کا جواب مزید مہنگائی کی صورت میں ملتا ہے، ہمارے برسر اقتدار اس طبقے کی شان ہی نرالی ہے کہ چینی 52 روپے سے 95 اور سو روپے بکنا شروع ہو گئی۔ آٹا( رولر فلور ملز کا) 55 سے 57 روپے کلو اور چکی آٹا 68 سے 75 روپے کلو ہو گیا۔ یہ کہتے ہیں گھبرانا نہیں میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ مطلب یہ کہ وہ ہم میں سے کسی کو نہیں چھوڑیں گے کہ جو کورونا سے بچ گئے وہ بھوک سے مر جائیں گے، ویسے ہم نے اپنی زندگی میں یہ پہلی حکومت دیکھی جس کو بے گھروں کی بہت فکر ہے اور ان کا فلسفہ یہ ہے کہ ”پناہ گاہیں“ بنا کر ان کو محتاج ہی رہنے دو، ملک میں کوئی ایسا سلسلہ نہ ہو کہ یہ بے گھر بھی کچھ خود کما کر اپنا ٹھکانہ بنا سکیں۔ ہمارے پاس وہ کون سی بڑی سکیم ہے جس کے تحت بے روز گاروں کو روز گار ملے گا۔ حکومت نے تعمیراتی شعبے کو بہت مراعات دی ہیں اور یہ دعویٰ کیا کہ اس سے روز گار ملے گا لیکن یہ حساب نہیں لگایا کہ اس شعبے میں روز گار حاصل کرنے والے کس طبقہ کے لوگ ہوں گے۔ کیا سبھی بے روز گار اینٹیں اور کڑاہیاں اٹھائیں گے اور یا پھر بار برداری کا کام کریں گے۔
ہمیں حیرت ہے کہ ڈالر بڑھتا جاتاہے۔ روپے کی قدر کم ہوتی جا رہی ہے ہر شے مہنگی ہو رہی ہے۔ اب تو دال پکانا بھی نا ممکن ہو گیا چہ جا ئیکہ کوئی اچھی سبزی کے بارے میں سوچے۔ گرمی بڑھ گئی پنکھا چلانا مجبوری ہو گئی، بجلی کا بل آیا تو بے ہوشی طاری ہونے لگی۔ اب تو ماہانہ خرچ بھی ممکن نظر نہیں آتا ایسے میں آپ معاشی استحکام چاہتے ہیں، کہ سیاسی استحکام تو آپ کی نظر میں کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا۔
اشیاء ضرورت اور خوردنی کے علاوہ ادویات بھی مہنگی ہو گئیں۔ اب تو خود کشی کی سوچ والے حضرات کسی زہریلی دوا کا بھی نہیں سوچ سکتے کہ موت نسبتاً آسان ہو، اب ضروری ہو گیا کہ خودکشی کے لئے بھی زیادہ تکلیف دہ طریقہ اختیار کیا جائے۔ عام لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت سے مہنگائی پر قابو نہیں پایا جاتا ہے تو مارکیٹ کو آزاد چھوڑ دیا جائے۔ کسی پابندی، قانون کی ضرورت نہیں۔ اگر مہنگائی پر کنٹرول نہیں تو پھر لوگوں کو ان کے رحم و کرم پر رہنے دیا جائے کہ آپ جب بھی کارروائی کا حکم جاری کرتے ہیں بازار سے اشیاء غائب اور زیادہ مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اگر یہ سب آزاد ہوں تو شاید بازار میں کچھ ”مقابلہ“ ہو اور تھوڑی بہت ریلیف ملے ورنہ اب تو سونا ایک لاکھ 29 ہزار روپے تولہ ہو گیا ہے۔