سات ماہ کے معصوم ایان کاقاتل کون؟حکومت کی نااہلی اور نظام کی سنگدلی پر نوحہ
رات دس بجے کے قریب مناواں میں پاکستان کی تاریخی کبھی نہ مکمل ہونے والی اورنج لائن کے بلکل نیچے ایک موٹرسائیکل حادثہ رونما ہوا جس نے پورے خاندان کو تاحیات صدمے میں مبتلا کر دیا۔۔ ہوا کچھ یوں کہ عید قرباں کے تیسرے دن ہنستی مسکراتی بچے دو ہی اچھے کے عین اصولوں پر اترتی ایک فیملی دعوت پر جا رہی تھی۔۔سات ماہ کے ایان کو ماں نے جیسے ہی کپڑے پہنائے تو باپ نے مسکراتے ہوئے کہا میرا بیٹا ڈاکٹر بنے گا ۔۔۔اتنے میں دو سالہ شہریار بھی باپ کی ٹانگوں سے آ لپٹا۔ باپ نے اسے گود میں اٹھایا اور کہنے لگا ۔۔۔ میرے یہ دو بیٹے میرے دو بازو ہیں ۔اسلئے میں کبھی بوڑھا نہیں ہوں گا۔ شکر بھرے لہجے میں بیگم نے ایان کو پاوڈر لگاتے ہوئے کہا اب چلیں بھی ورنہ رشتے دار منہ بنائیںگے۔۔۔موٹر سائیکل سٹارٹ ہوئی اور باتیں کرتے ہوئے سب چل دئیے ۔ راستے میں شہریار نے جب جوس کی ضد کی تو طے ہوا کہ واپسی پر شہریار اور ایان جو چاہے خرید لیں ۔۔۔۔ ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ بلند و بالا اورنج لائن کے پاس سے موٹر سائیکل گزری اور پھر کئی میٹر تک وہ گھسیٹتی ہی چلی گئی ۔۔۔موٹر سائیکل کا پہیہ گٹر کے اس ڈھکن میں پھنس گیا جو تھا ہی نہیں ۔۔۔جی ہاں میرا مطلب ہے اورنج لائن کی تعمیر تو شاید کبھی مکمل نہ ہو لیکن اس کی تعمیر کی آڑ میں کھودی گئی زمین اور پڑی ہوئی باقیات کے چکر میں آس پاس کا علاقہ بنجر بن گیا ہے ۔۔۔۔اندھیرے میں اکثر یہ کھلے ہوئے گٹر نظر ہی نہیں آتے ۔۔۔یہ علاقہ اورنج لائن کا وہی بدبخت حصہ ہے جس پر پہلے شہباز شریف نے جھولے لئے پھر ڈی جی خان سے اعلی افسری کا تجربہ لینے آئے بزدار نے بھی اس پر سیر کی مگر یہ تاحال کھلونا ہی ہے جسے دو بار ہی چلایا جا سکا۔۔۔خیر کہانی پر واپس آئیے ،،، جائے حادثہ پر چار جانیں بےسہارا پڑی تھیں۔۔۔۔ زخمی حالت میں کمزور جسم کی طاقت ور مامتا نے فوری اپنے بچوں کو اٹھانے کی کوشش کی ۔۔۔ایمبولینس پہنچی ۔۔۔ ماں کی ٹانگ زخموں سے چور تھی ،،، باپ کا بازو خون سے لت پت ،،،، شہریار اپنے پاوں کے زخموں سے رستا خون دیکھ کر رو رہا تھا اور ننھا ایان کھوپٹری میں گہرے زخموں کی وجہ سے بے ہوش ہوگیا تھا ۔۔۔۔ یہ منظر کسی قیامت سے کم نہ تھا ۔۔۔ ماں کو جنرل ہسپتال منتقل کیا گیا ۔۔۔باپ کو سرجری وارڈ جناح ہسپتال بھیجا گیا ،،، شہریار کو ابتدائی طبی امداد دی گئی اور ایان کو چلڈرن ہسپتال شفٹ کرنا طے پایا ۔۔کیسے ایک ڈھکن نے پورے خاندان کا شیرازہ بکھیر دیا ۔۔۔ہائے. ۔۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی ۔۔۔ اب اس ملک کے نظام کا ایک اور سیاہ پہلو شامل داستان ہے ۔ بچہ ایمرجنسی میں لایا گیا ۔۔۔سوچیں ذرا سات ماہ کا ننھا ایان ۔۔۔خون میں بھرا ہوا۔۔ سٹی سکین کے لئے کمرے میں سٹاف موجود نہیں ۔۔۔الٹرا ساونڈ کے لئے ٹیکنیشن فون سننے باہر گیا ہوا ہے۔۔ ایمرجنسی میں موجود جونئیر ڈاکٹر بڑی ڈاکٹر بننے کے لئے کتاب پڑھ رہی ہے ۔۔ارے کوئی تو میرے ایان کو دیکھو ۔۔۔ دیکھو اس کا رنگ پیلا پڑ رہا ہے۔ مگر سرکاری نظام میں سینہ کوبی کے علاوہ کیا ہی کیا جا سکتا ہے ۔۔۔جب کچھ نظر نہ آیا تو ایک فون گھمانا پڑا ۔۔افسر نے کہا بچے کو ذرا دیکھ لو۔۔۔سٹاف کو انکی بات کچھ سمجھ آئی تو اسکو ٹیکا لگایا ۔۔ پتہ چلا اسکا خون بہت بہہ گیا ہے ۔دماغ کی شریان پھٹ چکی ہے اور خون پورے دماغ میں پھیل گیا ہے ۔۔اب یہ مسئلہ کہ سینئر ڈاکٹر دیکھے گا تو بتائے گا کیا کرنا یے مگر رات کی ڈیوٹی پر سینئر ڈاکٹر اپنے کمرے کا دروازہ ہی کھول لیں تو غنیمت ہے ۔۔خیر کہہ کہلوا کے یہ بھی کروایا ۔۔۔پھر آئی سی یو میں شفٹ کیا گیا۔۔ اس ننھے معصوم کو جب وینٹی لیٹر پر ڈالا تو درجن نالیاں اس کے جسم میں ڈالی گئیں ۔۔ رات بھر وینٹی لیٹر پر رہا۔ صبح امید تھی کہ زندگی کی نئی صبح ہوگی مگر بے سدھ پڑا ایان اگلے روز اس دنیا سے چلا گیا ۔۔۔ شہریار ابھی بھی اسی آس میں ہے کہ گھر جاتے ہوئے ایان اور وہ چیز لیں گے ۔۔لیکن اس بار ایان چار کاندھوں پر ماتم کرتا ہوا گیا اور یہ کہہ گیا کہ اور کتنے معصوموں کی جان لو گے ۔۔۔ایان کی زندگی جتنی تھی اس نے جی لی مگر حکومتی نااہلیوں پر یہی دلیل دے کر تم کب تک پردہ ڈالو گے ؟
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.