لاہور سے لاپتہ ہونے والی چار بچیاں جسم فروشی کےلیے دبئی جانے سے کیسے بچیں ؟ اندرونی کہانی کیا ہے؟ 

لاہور سے لاپتہ ہونے والی چار بچیاں جسم فروشی کےلیے دبئی جانے سے کیسے بچیں ؟ ...
لاہور سے لاپتہ ہونے والی چار بچیاں جسم فروشی کےلیے دبئی جانے سے کیسے بچیں ؟ اندرونی کہانی کیا ہے؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی جد و جہد میں بہت سی ایسی چیزیں پروان چڑھ رہی ہیں جسکو حاصل کرنے کےلیے ہم کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ہمارے گھر میں ٹی وی اور انٹر نیٹ کا استعمال اور اس پھر مختلف قسم کی موبائل اپیلیکشینز جسے دیکھ کر مشہور ہونے کا شوق ہمارے بچوں پر کتنا بھاری پڑ سکتا ہے اسکا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے۔ ہماری بچیاں مشہور ہونے کے چکر میں اپنی عزت کے ساتھ ساتھ زندگیاں بھی گنوا بیٹھتی ہیں ہمارے ملک میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں زیادہ نہیں چند سال قبل کی بات کریں تو دوہزار سولہ میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی فوزیہ عظیم جو قندیل بلوچ کے نام سے بہت مشہور ہوئیں اسکی زندگی کی سٹوری بھی اس طرح ہے، وہ اپنے گھر سے سب چھوڑ کر نکلتی ہے اور پھر دشوار اور کٹھن راستوں سے گزر کر وہ خود کو مشہور کرتی ہے بہت سے سکینڈل بھی سامنے آتے ہیں جس میں مفتی قوی کے ساتھ اسکا سکینڈل خبروں کی زینت بھی بنتا ہے اس سکینڈل کے کچھ عرصہ بعد ہی اسے قتل کردیا جاتا ہے۔ 
لاہورمیں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تیس جولائی دوہزار اکیس کو چار کم عمر لڑکیاں سہانے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے گھر سے بھاگ نکلتی ہیں لیکن انکو نہیں پتہ کہ وہ کس دلدل میں پھنسنے جارہی ہیں یہ تو انکی قسمت اچھی تھی کہ میڈیا نے معاملہ اٹھایا تو پولیس اور حکام بالی حرکت میں آئے اور چند گھنٹوں بعد ہی ان بچیوں کو ساہیوال کے ایک قحبہ خانے سے بازیاب کرالیا گیا۔ اگر دیر ہوجاتی تو شاید ہی وہ کبھی بازیاب ہوپاتیں۔
لاپتہ ہونے والی دو بچیوں کا والد عرفان نے دو شادیاں کی تھیں اور وہ اپنی دونوں بیویوں کو طلاق دے چکا کیونکہ وہ نشے کا عادی تھا اس لیے اسکی شادیاں زیادہ دیر نہ چل سکیں تھیں۔ عرفان کی دونوں بیویوں سے دو بیٹیاں ہیں۔ دونوں سوتیلی بہنیں کنزہ اور انعم اپنے باپ عرفان کے پاس رہتی تھیں جنہوں نے اپنے باپ عرفان کے نشے کی وجہ سے تنگ تھیں وقوعہ سے چند روز قبل کنزہ اور انعم نے پڑوسی اکرم کی بیٹیوں عائشہ اور ثمرین کو ساتھ ملایا اور چاروں بچیوں نے حالات سے دلبرداشتہ ہو کر گھر سے بھاگنے کی ٹھانی اور تیس جولائی کو وہ اپنے گھر جو کہ ہنجروال کے علاقے نمبردار چوک میں واقع ہے وہاں سے نکلیں ان کےپاس چھ سو روپے تھے انہوں نے رکشہ کرائے پر لیا۔ آٹھ، دس، گیارہ اور چودہ سالہ چاروں لڑکیاں ہنجروال اورنج ٹرین سٹاپ سے ٹرین پر بیٹھ کر گلشن راوی پہنچیں، گلشن راوی میں عائشہ نے موبائل سے فون کر کے محلے دار عمر کو بلا لیا۔ جب عمر گلشن راوی پہنچا اور معاملہ سنا تو وہ ڈر گیا اور ان لڑکیوں کو واپس ہنجروال چھوڑ دیا اور گھر واپس چلا گیا اس نے بچیوں کے والدین کو بتا دیا کہ وہ بھاگ گئی ہیں اس دوران چاروں بچیاں ایک رکشہ ڈرائیورارسلان کے ہتھے چڑھ گئیں جو چاروں کم عمر لڑکیاں کو تین چار گھنٹے شہر میں گھماتا رہا اور شام ہوتے ہی انہیں قائداعظم انڈسٹریل اسٹیٹ کے قریب پنڈی سٹاپ پر اتار کر چلا گیا۔ 
 قائداعظم انڈسٹریل ایریا کے علاقے پنڈی سٹاپ سے چاروں لڑکیوں کو رکشہ ڈرائیور قاسم جی ون جوہر ٹائون لیجانے کےلیے بٹھاتا ہے لیکن لڑکیوں کو بے بس اور پریشان دیکھ کر وہ انہیں جوہر ٹائون چھوڑنے کی بجائے اپنے گھر واقع گرین ٹائون لیجاتا ہے جہاں پر رات گزارنے کے بعد وہ اپنے دوست آصف کو فون کرتا ہے جو کہ پہلے سے ہی جسم فروشی کے دھندہ کرتا ہے اور پیسوں کے عوض لڑکیوں کو خرید کر جسم فروشی کے اڈوں پر بیچتا ہے اور یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اسکی بیوی زینب لڑکیوں کو دبئی بھی لیکر جاتی ہے جہاں سے وہ جسم فروشی کے اچھے دام بھی وصول کرتی ہے۔ 
آصف ایک ٹیکسی ڈرائیور بھی ہے جو آن لائن ٹیکسی چلاتا ہے رکشہ ڈرائیور قاسم نے آصف سے بات کی اور تیرہ سالہ بڑٰ لڑکی کو ایک لاکھ روپےمیں فروخت کرنے کا سودا طے پاگیا۔ آصف رکشہ ڈرائیور قاسم سے ملکر لڑکیوں کو اگلے ہی دن ٹھوکر نیاز بیگ پر لیجاتے ہیں اورلڑکی کے پاس موجود سم بھی توڑ دیتے ہیں تاکہ پولیس انکی لوکیشن ٹریس نہ کرسکے پھر بڑی لڑکی کو وہ اپنی بیوی کے ساتھ گاڑٰی میں جبکہ تین لڑکیوں کو رکشہ ڈرائیور قاسم اپنے رکشہ میں بٹھا کر ساہیوال لیجاتے ہیں۔ 
ساہیوال پولیس روٹین میں جسم فروشی کے اڈوں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہوئے منگل کے روزملزم شہزاد کے قحبہ خانے پر ریڈ کرتی ہے تو وہاں سے شہزاد اور اسکے ساتھ پانچ لڑکیوں کو حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ بدھ کے روز شہزاد ضمانت کروا کرواپس آتا ہے تووہ چاروں لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کی خبر ٹی وی پر دیکھتا ہے اور ڈر کے مارے انہیں اپنے قحبہ خانے سے لیجا کر سڑک پر چھوڑ دیتا ہے اور ایک نامعلوم بن کر پولیس ون فائیو پر ان لڑکیوں کے بارے اطلاع کردیتا ہے جس کے بعد پولیس موقع پر پہنچ ان بچیوں کو حراست میں لے لیتی ہے۔ 
جب لڑکیوں سے ڈی پی او ساہیوال تفتیش کرتےہیں تو ساری بات سامنے آجاتی ہے جس کے بعد لاہور پولیس کو اطلاع ملتی ہے اور وہ لڑکیوں کو بدھ کی رات لیکر لاہور پہنچ جاتی ہے۔ پولیس رات لڑکیوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو  کے حوالے کرنے کی بجائے رات کو تھانہ میں رکھتی ہے اور صبح انکا بیان قلمبد کیا جاتاہے۔ 
بیان قلمبد کرنے کے بعد لڑکیوں کو جناح اسپتال لیجایا جاتا ہے اور میڈیکل کرایا جاتا ہے جس کے بعد یہ ثابت ہوگا کہ لڑکیوں کے ساتھ تشدد یا زیادتی ہوئی ہے یا نہیں۔
بڑی لڑکی نے جو پولیس کو بیان ریکارڈ کرایا اسکے مطابق رکشہ ڈرائیور قاسم کو انہوں نے جی ون جوپرٹاؤن میں ایک خاتون کے گھر چھوڑنے کا کہا جس پر قاسم نے ہم سے خاتون کے گھر جانے کی وجہ پوچھی عائشہ اور ثمرین نے قاسم کو بتایا وہ گھر سے بھاگ کر آئیں ہیں اور وہ اپنی مالکن کے گھر کام کرتی تھی اچھے برتاؤ کی وجہ سے وہ انکے گھر جانا چاہتی ہیں۔ قاسم کی نیت خراب ہوئی اور وہ انکو جوہرٹاؤن لے جانے کی بجائے اپنے گھر گرین ٹاؤن لے گیا جہاں سے انہیں ساہیوال لے گیا۔
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور شارق جمال کے مطابق بڑی لڑکی کو ملزمان نے جسم فروشی کے اڈے پر بیچنے کا ایک لاکھ میں سودا کیا تھا۔ ملزم آصف اور اسکی بیوی زینب کے بارے میں یہ بات سامنے آئی ہے وہ لڑکیوں کو جسم فروشی کےلیے دبئی لیکر جاتے ہیں انکا ریکارڈ چیک کیا جارہا ہے۔ 
اس واقعہ نے معاشرے پر بہت گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ والدین اپنے بچوں کو موبائل فونز اور انٹر نیٹ کا استعمال ضرور کرائیں لیکن انکے ساتھ ایسا تعلق بھی بنائیں کہ وہ اپنی ہر خواہش آپکے ساتھ شیئر کرسکیں۔