حسینہ کے ظلم کا خاتمہ 

Aug 07, 2024

محمد علی یزدانی

 ایک ماہ سے جاری احتجاج کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اپنے عہدے سے مستعفی ہوئیں جس کے بعد وہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت فرار ہونے پرمجبور ہوگئیں، اس طرح بنگلہ دیش میں  ایک جبر کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور بنگلہ دیش میں پندرہ سالوں سے اسلام پسندوں پر ظلم و ستم ڈھائے جا رہے تھے ان کا خاتمہ طلبہ تحریک نے کر دیا(جب بیداری کی لہر پیدا ہو تو چھوٹی سے چھوٹی چنگاری بھی بڑے بڑے محلوں کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے)۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم کے استعفے کے بعدان کے آرمی چیف وقار الزمان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے استعفیٰ دے دیا ہے،ملک میں ایک عبوری حکومت قائم کی جائے گی، عوام کے تمام مطالبات تسلیم کیے جائیں گے، مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی تحقیقات کی جائیں گی، عوام فوج پر بھروسہ رکھیں، حالات بہتر ہوجائیں گے، ہم بنگلہ دیش میں امن واپس لائیں گے،بنگلہ دیش کی فوج کے سربراہ نے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا کہ ہم صورتحال کو حل کرنے کے لیے اب صدر محمد شہاب الدین سے بات کریں گے۔بنگلہ دیش کے طلبہ کیوں احتجاج کر رہے تھے، اگر ہم اس کا جائزہ لیں  تو پتہ چلتا ہے کہ بنگلادیش میں 1971ء کی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ دیے جانے کے خلاف گزشتہ ماہ کئی روز تک مظاہرے ہوئے تھے جن میں 200 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم کو ختم کردیا تھا مگر طلبہ نے اپنے ساتھیوں کو انصاف  ملنے تک احتجاج جاری رکھنے اور سول نافرمانی کی کال دی تھی، کوٹہ سسٹم مخالف طلبہ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کے بعد پرتشدد احتجاج میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 300 تک جا پہنچی لیکن اس کے باوجود شیخ حسینہ واجد اقتدار چھوڑنے پر تیار نہ تھیں۔شیخ حسینہ واجد 19 سالہ اقتدار کے نتیجے میں ملک کی طویل ترین وزیراعظم رہیں، وہ اسی سال چوتھی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں جب کہ حسینہ واجد پر سیاسی مخالفین کے خلاف اقدامات کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں اور حال ہی میں ان کی حکومت نے بنگلادیشی جماعت اسلامی پر پابندی لگائی تھی۔طلبہ کا احتجاج شروع ہوا تو بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے انہیں  طنزًرضا کار کہا جس کے بعد طلبہ نے بھی اس نعرے کو سینے لگایا اور کہا کہ ہاں ہم رضا کار ہیں اور اس نعرے کو اپنی تحریک میں  جگہ دی۔ قارئین کو بتاتا چلوں کہ رضا کار کی اصطلاح ان بنگلہ دیشی لوگوں کیلئے بولی جاتی ہے جنہوں نے 1971ء کی جنگ میں  مکتی باہنی کا ساتھ دینے کی بجائے پاکستانی فوج اور اس وقت کی پاکستانی حکومت کا ساتھ دیا،انہیں اس وجہ سے رضا کار کا خطاب دیا گیا اور اس کو بعد میں  بنگلہ دیش میں  ایک گالی بنا دیا گیا کہ انہوں نے پاکستانی حکومت کا ساتھ کیوں  دیا۔ طلبہ کی تحریک کا آغاز ہوا تو کوٹہ سسٹم اور رضا کار یہ دو آپس میں  جڑے ہوئے معاملات تھے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے وقت اس وقت کی مکتی باہنی کا ساتھ دینے والے اور لڑنے والوں کیلئے بنگلہ دیش کی حکومت نے ان کے بچوں کیلئے ملازمتوں میں کوٹہ مختص کر رکھا تھا جس کے خلاف طلبہ سڑکوں پر نکلے اور انہوں نے میرٹ کا نعرہ لگایا تو حسینہ واجد نے انہیں  رضا کار کہہ کر ان کی حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کی اور ان کی توہین کرتی رہیں لیکن ان کے جائز مطالبات پر عمل کرنے سے انکا ر کرتی رہیں۔ حسینہ واجد کو ان کے آمرانہ طرز حکومت کی وجہ سے پہلے بھی تنقید کا سامنا رہا،انہوں  نے نہ صرف جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی بلکہ اپنے دور حکومت میں جماعت اسلامی کی بزرگ قیادت کو جنہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک میں  پاکستان کا ساتھ دیا تھا اس پاداش میں  پھانسی پر چڑھایا۔جب حسینہ واجد نے دیکھا کہ انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے تو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں  قید کرنا شروع کر دیا، طلبہ تحریک شروع ہوئی تو انہیں  دہشت گرد کہنا شروع کر دیا اور جب بات نہ بنی تو جماعت اسلامی کو دہشت گرد جماعت کہہ کر اس پر پابندی لگا دی۔ اس کے علاوہ حسینہ واجد نے اپنے دور حکومت میں  بھارت نوازی کی بھی انتہا کر دی جس کا بنگلہ دیشی عوام کو رنج تھا،کیوں کہ بنگلہ دیش کی اکثریت حسینہ واجد کی بھارت سے بڑھتی ہوئی قربت کو پسند نہیں  کرتی تھی (حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کو بنگلہ دیش سے بھارت نواز حکومت کے خاتمے کے طور پر بھی دیکھاجا رہا ہے)اور جب حکومت ختم ہوئی تو پناہ لینے کیلئے بھی شیخ حسینہ واجد نے بھی بھارت ہی کی جانب دوڑ لگائی۔ قدرت کی ستم ضریفی دیکھئے کہ وہ بنگلہ دیش جس کے قیام میں  ان کے والد نے تاریخی کردار ادا کیا اس کے مجسمے لوگوں کے غیض و غضب کا نشانہ بنے بلکہ حسینہ واجد کی بھارت نوازی کی وجہ سے لوگوں  نے ان کے والد سے جڑی ہر چیز کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اب اگرچہ بنگلہ دیش کے آرمی چیف نے عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ہے لیکن اس میں  ایک سبق ان حکمرانوں کیلئے موجود ہے جو جب اقتدار میں  ہوتے ہیں تو طاقت کا نشہ انہیں  عوامی جذبات اور امنگوں  سے ماورا دکھائی دیتا ہے اور جب اقتدر چھنتا ہے تو پھر بھاگنے کیلئے جائے پناہ بھی نہیں ملتی،دنیا بھر میں  ظلم و ستم ڈھانے والے حکمرانوں کو اس سے سبق سیکھنا چاہئے۔

  

مزیدخبریں