بنگلہ دیش میں پاکستان دوست عوام کی فتح

بنگلہ دیش میں پاکستان دوست عوام کی فتح
بنگلہ دیش میں پاکستان دوست عوام کی فتح

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

بنگلہ دیش میں پاکستان کی فتح ہوئی،بنگلہ دیشی نوجوان حسینہ واجد کی فسطائی سوچ اور آمرانہ اندازِ فکر و عمل کے خلاف اُٹھے،کوٹہ سسٹم کے خلاف سراپا احتجاج بنے۔رائے عامہ منظم حسینہ واجد کی حکومت کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا،200سے زائد نقوش کی قربانی دی۔ سپریم کورٹ کے حکم سے کوٹہ سسٹم کا حکومتی فیصلہ مسترد ہوا۔طلبہ اور طالبات جیت گئے۔ عوام کی فتح ہوئی، کوٹہ سسٹم کا فیصلہ، حکومتی فیصلہ کیا تھا،دراصل حسینہ واجد کا خمیر پاکستان دشمنی اور ہندوستان دوستی میں گندھا ہوا ہے ان کے والد شیخ مجیب الرحمان کی سیاسی جدوجہد، جسے وہ آزادی کی جدوجہد کہتی ہیں ہندوستانی سازش کی مرہون منت ہے۔ شیخ مجیب الرحمان بنگالیوں کا لیڈر تھا۔ مغربی پاکستان کی عسکری اور بیورو کریٹک قیادت سے گلے شکوے اور ناراضگی انہیں علیحدگی کی تحریک چلانے تک لے گئی۔1971ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان کے عوام کی متفقہ اور متحدہ نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی۔یہ الگ بات ہے کہ عوامی لیگ نے ان انتخابات میں تشدد، گھیراؤ جلاؤ کے تمام ہتھکنڈے استعمال کئے،انتخاب والے دن مخالف جماعتوں کے ووٹروں کو بیلٹ بکس تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا اور جو وہاں تک پہنچ پائے ان کے بکس  غائب کر دیئے گئے۔ انتخابات میں دھونس دھاندلی کے تمام حربے استعمال کرکے عوامی لیگ بنگالیوں کی واحد نمائندہ جماعت بن گئی تھی۔

اس دور میں اگر کسی جماعت نے منظم طور پر، فکری و عملی طور پر عوامی لیگ کا سامنا کیا، مقابلہ کیا، ان کی پاکستان دشمنی بے نقاب کی وہ جماعت اسلامی تھی، اس دور میں نہ مغربی پاکستان میں اور نہ ہی مشرقی پاکستان میں، کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں تھی، جو شیخ مجیب الرحمان کے سیاسی بیانیے کا مقابلہ کرے، بھٹو کی پیپلزپارٹی ایسی نہیں تھی،جو شیخ مجیب الرحمان کے سیاسی بیانیے کا مقابلہ کر سکے۔ بھٹو کی پیپلزپارٹی تو پنجاب اور سندھ میں ہی نظر آتی تھی،جبکہ مشرقی پاکستان کے سیاسی منظر پر عوامی لیگ اور پس منظر میں ہندوستانی ایجنسی ”را“ چھائی ہوئی تھی، بنگالیوں کے دِلوں میں طویل ایوبی دور کے باعث نفرت بھری ہوئی تھی، اس نفرت کا اظہار71ء کے انتخابات میں انہوں نے عوامی لیگ کو ووٹ دے کر کیا، اس وقت بھی یہاں پر جنرل یحییٰ خان کی شکل میں آمریت کا دور دورہ تھا۔ بھٹو کی پیپلزپارٹی مغربی پاکستان میں سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر اُبھری، لیکن اسے مغربی پاکستان میں ویسی مقبولیت نہیں تھی، جیسی مقبولیت عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان میں حاصل ہوئی۔ ہم نے، ہماری اشرافیہ نے، ہماری فوجی اور سویلین انتظامیہ نے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم نہیں کیا۔اسے اقتدار سونپنے کی بجائے ملٹری ایکشن کر دیا، پھر جو کچھ ہوا وہ ہماری قومی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ بھارتی ”را“ کی مدد اور بھارتی فوجی مداخلت کے نتیجے میں بنگلہ دیش معرضِ وجود میں آیا۔ شیخ مجیب الرحمان بابائے قوم کے طور پر بنگلہ دیش کے سربرا تھے۔ مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش کے نام سے ایک آزاد مملکت کے طور پر معرضِ وجود میں آ گیا۔پاکستان عالم ِ اسلام کی سب سے بڑی مملکت کے اعزاز سے محروم ہو کر پانچویں نمبر پر چلا گیا۔

مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے کے عمل کے دوران جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کو متحد رکھنے کی کاوش کرنے والی فوج کے دست و بازو بنے۔ البدر اور الشمس نامی تنظیموں کی تاریخ ایسے ہی نوجوانوں کی عظیم الشان قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ بہرحال سانحہ مشرقی پاکستان ہو گیا۔

بنگالیوں کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ ان کے ساتھ ہتھ ہو گیا ہے شیخ مجیب کے بھارت سرکار کے ساتھ معاملات اور بھارتی بالادستی تسلیم کرنے کی پالیسی نے بنگالیوں کے دِلوں میں شیخ جی کے خلاف نفرت پیدا کی جسے بنیاد بنا کر 1975ء میں بنگلہ دیش کی فوج نے جنرل ارشاد کی قیادت میں شیخ مجیب کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور شیخ مجیب کے سارے خاندان کو قتل کر دیا۔ حسینہ واجد  اور اس کی چھوٹی بہن اُس وقت جرمنی میں تھیں اس لئے بچ گئیں۔چھ سال تک بھارت سرکار ان کی حفاظت بھی کرتی رہی اور ذہن سازی بھی، حتیٰ کہ1981ء میں حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کی سیاست میں اتارا گیا۔اُس وقت سے اپنی معزولی تک حسینہ واجد پاکستان دشمنی،جماعت اسلامی دشمنی، اسلامی جمعیت طلبہ دشمنی اور بھارت نوازی میں پیش پیش رہی ہیں انہوں نے متحدہ پاکستان میں، پاکستان کی سالمیت اور بقاء کے لئے سیاسی جدوجہد کرنے والے بنگالیوں پر جنگی جرائم میں مقدمات چلائے، جماعت اسلامی کے عمر رسیدہ 80، 90 سالہ بوڑھوں کو بھی پھانسیوں پر لٹکایا، کسی بھی عالمی قانون کے مطابق سیاسی جدوجہد کرنے والوں کو جنگی مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا،جماعت اسلامی اور جمعیت کے لوگوں نے پاکستان میں رہتے ہوئے(مشرقی پاکستان میں) پاکستان کی سالمیت اور بقاء کے لئے جدوجہد کی۔اس وقت تو بنگلہ دیش معرضِ وجود میں بھی نہیں آیا تھا پھر وہ جدوجہد بنگلہ دیش کے خلاف کیسے قرار پائی۔ بہرحال شیخ کی بیٹی دشمنی میں تمام حدود پار کر گئی تھی،جیلیں اور پھانسیاں حسینہ واجد کے ادوارِ حکمرانی کا خاصا رہیں۔ جنوری2024ء میں حسینہ واجد چوتھی مرتبہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم بنیں تمام دیگر سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل سے دور کر دیا گیا تھا۔ عوامی لیگ اکیلی ہی میدان میں اتری اور جیت گئی۔جیتنے کے بعد اس نے اپنی پارٹی کو نوازنے کے لئے ایک کوٹہ سسٹم کا اجراء کیا جس کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں بنگلہ دیش کی آزادی میں حصہ لینے والوں کے لئے خصوصی کوٹہ رکھا گیا،جس کے خلاف نوجوان میدانِ عمل میں آ گئے۔ حسینہ واجد کی حکومت نے اس عوامی احتجاج کو آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لئے طاقت کا بھرپور استعمال کیا، چند ہی دِنوں میں 200 سے زائد نوجوان سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے، ہزاروں زخمی ہوئے،ہزاروں جیل بھجوائے گئے، حالات بگڑتے ہوئے دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور پرانا کوٹہ سسٹم بحال کر کے نوجوانوں کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی۔

حسینہ واجد کیونکہ اپنی شکست تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھی اس لئے اس ساری ہنگامہ آرائی کے لئے جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کا عندیہ دیا ان نوجوانوں کو رضا کار،یعنی پاکستان کا ایجنٹ قرار دے دیا۔نوجوانوں نے اعلان کیا کہ وہ حسینہ واجد سے استعفیٰ لے کر دم لیں گے۔ ڈھاکہ کی طرف مارچ کا اعلان کر دیا گیا۔تحریک میں شامل ہر نواجون نے ”میں رضا کار ہوں“ کا نعرہ اپنا لیا۔حسینہ واجد حکومت نے رضا کاروں کو بھی آہنی ہاتھوں سے کچلنے کا اعلان کر دیا۔سکیورٹی فورسز نوجوانوں پر سیدھی گولیاں برسانے لگیں،نوجوانوں کا زور و شور بھی بڑھنے لگا،100سے زائد نوجوان جب گولیوں کا شکار ہو چکے تو حسینہ واجد نے اپنے دست ِ راست آرمی چیف کو معاملات کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا،لیکن فوج نے انکار کر دیا اس طرح حسینہ واجد کو مستعفی ہو کربھارت فرار ہونا پڑا۔بنگلہ دیش میں عوام جیت گئے، نوجوان عوامی لیگ کے خلاف اور شیخ مجیب الرحمن کے خلاف نکل پڑے ہیں وہ اپنے وطن سے بھارت نواز عوامی لیگ اور بان بنگلہ دیش کے ہر نشان کو مٹانے کے لئے یکسو ہیں وہ موجودہ آرمی چیف کو بھی ہٹا کر کسی نیوٹرل جرنیل کو آرمی کی قیادت کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔شیخ مجیب الرحمن کی بھارت نوازی اور پاکستان دشمن کا دور ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔باقی مستقبل کا حال اللہ جانتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -