انصار عباسی نے وزارت خزانہ میں قواعد کی خلاف ورزی کا تہلکہ خیز انکشاف کر دیا
اسلام آباد ( خصوصی رپورٹ )سینئر صحافی و تجزیہ کار انصار عباسی نے وزارت خزانہ میں قواعد کی خلاف ورزی کا تہلکہ خیز انکشاف کر دیا ۔
اپنی رپورٹ میں انہوں نے لکھا کہ ملک کے سرکاری شعبہ جات کے مالیاتی نظم و ضبط کو یقینی بنانے کی ذمہ دار وزارت خزانہ نے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور کابینہ کی جانب سے پالیسی منظور کیے بغیر اپنے ملازمین میں 24 کروڑ روپے بطور اعزازیہ بانٹ دیئے۔ زخموں پر نمک پاشی کے مترادف یہ اعزازیہ تنخواہوں میں شامل نہیں کیا گیا تاکہ انکم ٹیکس نہ دینا پڑے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مالی سال 2022-23 کے دوران فنانس ڈویژن نے اعزازیئے کی ادائیگی کی مد میں 24کروڑ ایک لاکھ 67 ہزار 79روپے خرچ کیے، اور ہر ملازم کو اس کی4 بنیادی تنخواہوں کے مساوی پیسے بانٹے گئے ہیں۔ رپورٹ میں یہ رقم واپس لینے کی سفارش کی گئی ہے۔
"جنگ " میں شائع ہونیوالی رپورٹ کے مطابق اعزازیہ کا مطلب ہے ایک سرکاری ملازم کو خصوصی کام کے معاوضے کے طور پر دی جانے والی متواتر یا غیر متواتر ادائیگی ہے۔ تاہم، کوئی بھی کام جو سرکاری ملازم کے عام فرائض کے دائرے میں آتا ہے، اسے خصوصی کام نہیں سمجھا جا سکتا۔ فنانس ڈویژن کے آڈٹ کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈویژن نے مالی سال 2022-23 کے دوران اعزازیہ کی ادائیگی کی مد میں 24 کروڑ ایک لاکھ 67 ہزار 79 روپے خرچ کیے۔
پے رول سسٹم ہر مہینے کی 21 تاریخ کو چلتا ہے جبکہ بجٹ اعزازیہ عموماً ہر مالی سال کے جون کے آخری ہفتے میں منظور کیا جاتا ہے، اے جی پی آر کے پے رول سسٹم کے ذریعے اعزازیہ حاصل کرنا ممکن نہیں لہٰذا، اے جی پی آر نے مالی سال کے آخری دنوں میں ڈی ڈی او کے ذریعے نقد ادائیگی کی منظوری دی۔ رپورٹ کے مطابق، بجٹ اعزازیہ سے 10 فیصد تک ٹیکس منہا کیا گیا ہے۔ تاہم آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کا جواب ناقابل قبول ہے کیونکہ اعزازیہ کابینہ سے پالیسی کی منظوری کے بغیر ادا کیا گیا تھا۔ مزید برآں ای سی سی نے اپنے فیصلے میں مخصوص مدت کیلئے اعزازیہ منظور کیا تھا کیونکہ فیصلے میں مستقبل کی ادائیگیوں کا کوئی ذکر یا ہدایات نہیں تھا۔ ای سی سی کے کام کاج میں اعزازیے دینے کا مینڈیٹ شامل نہیں۔ رپورٹ میں وزیراعظم سے سفارش کی گئی ہے کہ جو اضافی رقم ادا کی گئی ہے وہ واپس لی جائے۔