بلاول بھٹو زرداری کا فکر انگیز پیغام

بلاول بھٹو زرداری کا فکر انگیز پیغام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ویب سائٹ پر اپنے پیغام میںاقلیتوں پر حملہ پر اظہارتشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں پر حملہ قائداعظم کے تصور پاکستان پر حملہ ہے۔ اقلیتوں کی جان ومال،عبادت گاہوں پر حملے پاکستان کو واضح دھمکی ہے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔سیاسی ومذہبی جماعتیں اورسول سوسائٹی اقلیتوں کے حق میں آواز بلند کریں۔مندر گرانے اور قبروں کی بے حرمتی کے واقعات افسوسناک ہیں۔میڈیا کے توسط سے اہل وطن تک پہنچنے والا بلاول بھٹو زرداری کا یہ تاثراتی بیان اپنے معنویت اور اہمیت کے اعتبار سے ایک فکرانگیزپیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ پیغام ایسے اہل فکر ونظرکی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے جو پاکستان کے وقار اور مستقبل کے بارے میں دوراندیشی کے ساتھ غوروفکر کرتے ہیں۔
وطن عزیزکے حالات بارے حقائق سے آگاہ ہرشخص بخوبی جانتا ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں تمام شہریوں کو ان کے مذہب،نسل ،رنگ،عقائد،زبان اور حسب ونسب کے امتیاز سے بالاتر یکساں اور برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ملکی دستور اور آئین میں ان حقوق کی ضمانت اصولی طور پر فراہم کی گئی ہے۔قیام پاکستان کے بعد عملی اور اطلاقی اعتبار سے یہ سلسلہ نہایت مثالی اور تسلی بخش انداز میں جاری رہا ،لیکن جولائی انیس سو ستتر میں یہ سلسلہ پہلی بار اس وقت متاثر ہوا جب جنرل ضیاءالحق نے وطن عزیز کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کو ختم کرکے اقتدارپر نہ صرف قبضہ کرلیا، بلکہ ”نفاذِنظام اسلام “کا دلفریب اور جھوٹا وعدہ کرکے اس اقتدار کو طول دینے کے لئے اقدامات کئے۔یہ صورتحال اس مرحلے پر تشویشناک صورت اختیار کرگئی جب انیس سو نواسی میں ایک طرف راولپنڈی کی سنٹرل جیل میں بھٹو صاحب کو تارامسیح جلاد کے ہاتھوں موت کی سزا دی گئی اور دوسری طرف روس کی طرف سے افغانستان میں عسکری مداخلت کا واقعہ رونما ہواجس کے نتیجے میں اس علاقے کے تزویراتی اور سیاسی حالات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تبدیل ہوگئے۔
پاکستان کے دور اندیش اور حقیقت پسند حلقوں میں یہ سوچ عام رہی کہ پاکستان کو افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت سے گریزکرتے ہوئے اپنے یہاں جمہوریت کی بحالی کی طرف توجہ دینا چاہیے۔ اس کے مقابلے میں مارشل لاءحکام کا خیال تھا کہ اگرروس کو افغانستان سے باہر نہ نکالاگیا تووہ حوصلہ پا کر آگے بڑھے گا اورپاکستان کو روندتا ہوا بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی کے اپنے دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔جنرل ضیاءالحق نے سیاسی میدان میں پاکستان پیپلزپارٹی کو ختم کرنے اور اس کی قیادت وکارکنوں کے حوصلے پست کرنے کے لئے ریاستی جبروتشددکے تمام ہتھکنڈے جس سفاکی کے ساتھ استعمال کئے وہ اب تاریخ کا حصہ ہیں ،لیکن یہ حقیقت آمریت کے لئے تازیانہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی شناخت اور سیاسی قدوقامت کو ختم نہیں کیاجاسکا۔ جنرل ضیاءالحق نے دوسری طرف اسلام کے نام پر اپنے اقتدار کی ہوس کو پورا کرنے کے لئے افغانستان میں مداخلت کی پالیسی اختیار کی ،جس کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی کمیونزم دشمنی کے سبب ہرطرح کی امداد اور تعاون فراہم کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ایک طے شدہ منصوبے (بلکہ سازش)کے تحت افغانستان میں مسلح مداخلت کا آغاز ہوا اور اس کو جہاد کانام دیاگیا۔امریکی اور یورپی میڈیا نے روسی افواج کے آگے مزاحمت کرنے والوں کو حریت پسنداور مجاہدکے القاب دیئے اور دوسری طرف ان کی اعانت کے لئے ڈالروں کی بارش کردی گئی۔
افغانستان کے حالات کے سبب ہی عالمی برادری نے پاکستان میں جنرل ضیاءالحق کی آمریت اور اسلام کے حوالے سے اس کی خودساختہ توجیہات کو قبول کرتے ہوئے اس کو قبول کیا۔اگرچہ پاکستانی عوام نے پیپلزپارٹی کی قیادت پر اپنے اعتماد کو متزلزل نہ ہونے دیا اور جمہوریت کی بحالی کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھی ،لیکن آمریت کا شکنجہ دن بدن مضبوط اور عذاب کی شکل اختیارکرتاچلاگیا۔یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب انیس سو اٹھاسی میں جنرل ضیاءالحق ایک فضائی حادثے میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ تقریباًگیارہ سال کے اس عرصے میں یوں تو پاکستان اور پاکستان کے عوام کو آمریت کے ہاتھوں گہرے زخم برداشت کرنا پڑے ،لیکن ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ اورناقابل تلافی نقصان یہ ہوا کہ پاکستان کے سماج میں فرقہ واریت ،منشیات ،لسانی عداوت اور علاقائی عصبیت نے اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔    ٭

مزید :

کالم -