آمدن کے اہداف کے لیے چالیس ارب کے اضافی ٹیکس!
عرفان یوسف
عالمی مارکیٹ میں پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان میں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم تو ہوئی ہیں لیکن اس تناسب سے نہیں ہوئیں جس تناسب سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت نیچے آئی ہے۔ پاکستان میں حکومت بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی کے اثر کو ٹیکس بڑھا کر تقریباً ختم کر دیتی ہے حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک میں ترقی کی شرح مستحکم ہوئی ہے، مہنگائی کم ہے اور ترسیلات زر یعنی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجوائی جانے والی رقوم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں لیکن ان تمام مثبت رجحانات کے باوجود پاکستان میں سرمایہ کاری کی شرح کم ہو رہی ہے سال کے درمیان لگائے جانے والے ٹیکسوں کو حزب اختلاف منی بجٹ قرار دیتی ہے وفاقی حکومت نے نے بیرون ملک سے درآمد کیے جانے والی سینکڑوں اشیا پر درآمدی ڈیوٹی میں اضافے کا اعلان کیا ہے جس سے حکومت کو چالیس ارب روپے کی اضافی آمدن ہو گی وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈارکا کہنا ہے کہ غیر ضروری سامان آسائش پر یہ اضافی ڈیوٹی اس لیے عائد کی گئی ہے کہ حکومت اپنی آمدن کے اہداف حاصل نہیں کر سکی ہے آمدن کی جو ہدف ہم نے جون سے نومبر تک کے لیے مقرر کیا تھا اس میں چالیس ارب کے خسارے کا سامنا ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے ہم نے بیرون ملک سے آنے والے بعض سامان پر اضافی درآمدی ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے معاشی میدان میں فیصلہ کرنے والے اعلیٰ ترین سرکاری ادارے، کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں حکومت نے جن تین سو سے زائد سامان تعیش پر اضافی ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ان میں بیرون ملک سے آنے والا خواتین کے میک اپ کا سامان اور ایسے پھل اور کھانے پینے کی اشیا ہیں جو پاکستان میں پیدا یا تیار نہیں ہوتیں۔ ان میں درآمدی پنیر اور پھل وغیرہ شامل ہیں اس کے علاوہ ایک ہزار سی سی سے بڑی گاڑیوں پر بھی درآمدی ڈیوٹی عائد کی گئی ہیحکومت کی جانب سے درآمدی استعمال شدہ 1 ہزار سی سی سے زائد پاور کی گاڑیوں پر ڈیوٹی بڑھانے سے ان کی قیمتوں میں 2 لاکھ روپے تک کااضافہ ہوگیا ہے۔ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کے بعد 1600 سے زائد اور 1800 سی سی تک کی پرانی امپورٹڈ گاڑیوں کے دام یکدم 2 لاکھ روپے بڑھا دیے گئے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے لگژری مصنوعات کی درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنے اور ٹیکس آمدن میں ہوئی کمی کو پوار کرنے کے لیے درآمدی امپورٹڈ گاڑیوں پر 10 فیصد ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے ۔ڈیلرز کے مطابق 1 ہزار سی سی سے زائد اور 1300 سی سی تک کی درآمدی استعمال شدہ گاڑی کی قیمت میں 95 ہزار روپے اضافہ ہو چکا ہے جبکہ 1300 سے زائد اور 1500 سی سی انجن پار والی گاڑی اب پہلے کے مقابلے 1 لاکھ 35 ہزار روپے مہنگی ہو گئی ہے ۔ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کے بعد 1600 سے زائد اور 1800 سی سی تک کی پرانی امپورٹڈ گاڑیوں کے دام یکدم 2 لاکھ روپے بڑھا دیے گئے ہیں وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ یہ اضافی ٹیکسز عائد کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ اس اضافے کا اثر ان اشیا پر نہ پڑے جو متوسط طبقے کے عوام استعمال کرتے ہیں کابینہ کی کمیٹی نے اگلے سال ہونے والی گندم کی فصل کے لیے امدادی قیمت تیرہ سو روپے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے مکئی کی درآمد پر بھی تیس فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق ان فیصلوں کا مقصد مکئی کے کاشتکاروں کو تحفظ دینا ہے تاکہ انہیں اپنی فصل کی اچھی قیمت مل سکے، ٹیکس آمدن کے اہداف پورے نہیں ہو رہے اور عام آدمی اپنی زندگی میں تبدیلی یا بہتری محسوس نہیں کر پا رہا حال ہی میں حکومت نے آمدن میں کمی کو پورے کرنے کے لیے 40 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے ہیں جو اْن کے خیال میں ایسی پرتعیش اشیا کی درآمد پر عائد کیے گئے ہیں جو نہ تو عام آدمی کے استعمال میں ہیں اور نہ ہی ملکی سطح پر تیار ہونے والی اشیا میں خام مال کے طور پر استعمال ہوتی ہیں حکومت نے رواں مالی سال کے دوران ٹیکس وصولیوں کا ہدف 3104 ارب روپے مقرر کیا ہے اور جولائی سے اکتوبر تک فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 801 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا ہے جو اس عرصے کے دوران ٹیکس کلیکشن کے ہدف سے 40 ارب روپے کم ہے سمگلنگ بڑھے گی ٹیکس یہ کہہ کر لگایا گیا ہے کہ 40 ارب روپے چاہیے لیکن ایف بی آر کی آمدن کا ایک بڑا حصہ درامدی مصنوعات پر عائد ڈیوٹی سے حاصل ہو رہا ہے۔ درامدی ڈیوٹی بڑھانے سے مصنوعات کی باقاعدہ درامدت کم ہوں گی اور چیزیں سمگل ہو کر آئیں گی۔ تو پھر ان اقدامات کا فائدہ کیا ماہر اقتصادیات کے خیال میں رواں مالی سال میں ٹیکس وصولی کا 3104 ارب روپے کا ہدف حقیقت پسندانہ نہیں ہے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ اضافی ٹیکس اور ڈیوٹیز سے حاصل ہونے والی آمدن آپریشن ضربِ عضب اور متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کرانے والے افراد کی بحالی پر خرچ کی جائے گی حکومت نے 61 درآمدی مصنوعات پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی میں پانچ سے دس فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے اور 289 مصنوعات کی درآمد پر 5 فیصد ڈیوٹی لگائی گئی ہے ٹیکس یہ کہہ کر لگایا گیا ہے کہ 40 ارب روپے چاہیں لیکن ایف بی آر کی آمدن کا ایک بڑا حصہ درامدی مصنوعات پر عائد ڈیوٹی سے حاصل ہو رہا ہے۔ درامدی ڈیوٹی بڑھانے سے مصنوعات کی باقاعدہ درامدت کم ہوں گی اور چیزیں سمگل ہو کر آئیں گی۔ تو پھر ان اقدامات کا فائدہ کیا ہواانھوں نے کہا کہ اگر کچھ ماہ کے دوران ٹیکس کا ہدف پورا نہیں ہو گا تو پھر دوبارہ منی بجٹ آئے گاپاکستان میں رائج قانون کے تحت ٹیکس اور ڈیوٹیز کی شرح میں ردوبدل کرنے کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے لیکن وزیر خزانہ نے ٹیکس سے متعلق نئے اقدامات متعارف کروانے کے لیے ایس ار او جاری کیا ہے اور ان ٹیکسوں کی منظوری پارلیمنٹ نے نہیں دی ہے ماہر اقتصادیات کے مطابق ملک میں آمدن کو بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ کر کے صنعتی ترقی کو بڑھانا ہو گاپاکستان میں حکومت کا کہنا ہے کہ صنعتوں کے لیے توانائی کی صورتحال پہلے سے بہتر ہوئی ہے لیکن ان سب کے باوجود ملک میں برامدات کم ہو رہی ہے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال میں جولائی سے اکتوبر کے دوران ملک میں مجموعی برامدات کا حجم 6 ارب 87 کروڑ ڈالر رہا جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 13 فیصد کم ہے اسی دوران ملک میں مجموعی طور پر 14 ارب 56 کروڑ ڈالر کی درآمدت ہوئی ہیں پاکستان میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہو رہی ہے جس سے پاکستان کی مصنوعات بیرونی منڈیوں میں سستی ہو رہی ہیں۔ ملک میں بینکوں کی شرح سود کم ترین سطح پر ہے لیکن نہ تو نجی سرمایہ کار قرضے لے رہے ہیں اور نہ برامدت میں اضافہ ہو رہا ہے ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت میں ترقی کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ کاری بڑھے، کاروبار کے لیے ماحول ساز گار ہو تاکہ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہونے سے حقیقی ترقی ہو کیونکہ آمدن بڑھانے کے عارضی اقدامات معیشت کو مستحکم نہیں کر سکتے ہیں صدرآل پاکستان انجمن تاجران خالد پرویز کا کہنا ہے کہ ایف بی آروِد ہولڈنگ ٹیکس کے حوالے سے تاجروں کو ریلیف پیکج کا لالی پوپ دے رہا ہے جبکہ وزیرخزانہ ضروری اور فوڈ آئٹم پر 140ارب روپے کی ریگولیٹری ڈیوٹی لگا کر یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ اس سے مہنگائی نہیں بڑھے گی جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس ڈیوٹی کا اعلان ہوتے ہی مہنگائی کی ایک زبردست لہر اُٹھی ہے جس سے لا محالہ غریب اور متوسط طبقات ہی متاثر ہوں گے ۔ حکومت قرض پر قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف اورورلڈ بینک کی تمام شرائط تسلیم کرتی جارہی ہے ۔ قوم کو بچت پر مائل کرنے کے لیے کسی مہم کو لانچ کرنے کی بجائے قومی بچت کی سکیموں پر منافع کم کیا جا رہا ہے اور حکومت اپنے اللوں تللوں سے باز آنے پر تیار ہے اور نہ ہی 200ارب کی سالانہ کرپشن پر قابو پانے کے لیے کوئی اقدام نظر آتا ہے کہ اس میں طاقتور اور حکمران طبقہ ملوث ہے تاجر بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت ایسی پالیسیاں ترتیب دے جو تاجر دوست ہوں اور سرمایہ کاری کی ترغیب دیں مگر ٹیکسوں کے شعبے میں بیٹھے بزر جمہر اس کے اُلٹ کر رہے ہیں ۔ تاجر وزیر اعظم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ خود اس معاملہ کو دیکھیں ۔ بزنس کمیونٹی کو مطمئن کریں کہ بزنس کمیونٹی کے تعاون سے ہی شخصی و ملکی خوشحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے ۔ 40ارب روپے کے نئے ٹیکس ہماری مشاورت کے بغیر لگائے گئے ہیں جو سراسر زیادتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان ٹیکسوں سے جہاں تجارت متاثر ہوگی وہیں مہنگائی میں بھی اضافہ ہوگا ، حکومت کو ان ٹیکسوں کے نفاذ سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا چاہئے تھالیکن حکومت نے ایسا نہ کیا جو تاجر دوستی کا ثبوت نہیں ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ کیا ساری عمر وہی لوگ ٹیکس دیتے رہیں گے جن پر پہلے ہی ٹیکسوں کا اتنا بوجھ ہے کہ وہ اٹھا نہیں پارہے۔ حکومت کیوں ایسی منصوبہ بندی نہیں کرتی جس سے ٹیکس نیٹ کو وسعت دیکر نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایاجائے تاکہ ملک کا مجموعی اور معاشی بوجھ وہ لوگ بھی اٹھائیں جن لوگوں نے کبھی ایک دھیلا بھی سرکار کے خزانے میں بطور ٹیکس جمع نہیں کرایا۔انہوں نے کہا کہ عوام سے پیسہ اکٹھاکرنے کا اصل طریقہ چونکہ مشکلات پر مبنی ہے اس پر محنت کرنا پڑتی ہے لیکن حکومت اور ایف بی آر محنت ، تگ و دو کرنے کو تیار نہیں ہیں اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آسان طریقہ حکومت اور ایف بی آر نے ڈھونڈ لیا ہے۔ اب آسان طریقوں سے عوام الناس کی جیب تراشنے کا عمل اور چالیس ارب روپے کے ٹیکس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ نعیم میر نے مطالبہ کیا کہ حکومت تاجروں کو جلد از جلد ریلیف پیکیج دے، چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکس تو لگادئیے گئے ہیں۔ لیکن تاجروں کیلئے ریلیف پیکیج کا اعلان ابھی تک نہیں کیاگیا۔ اگر یونہی نظام چلتا رہا تو تاجروں کی بے چینی بڑھتی جائیگی جس کے نتیجے میں تاجر دوبارہ احتجاج پر بھی مجبور ہوسکتے ہیں اگر حکومت کے محصولات کی وصولی 40 ارب روپے کم ہوئی ہے تو اس میں غریب عوام کا کیا قصور ہے ، حکومت نے جن 313 درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی بڑھائی ہے اس کے اثرات عوام پر ہی مرتب ہونے ہیں اور اینڈ کنزیومرز مہنگائی کی چکی میں پسے گا دنیا بھر میں عام استعمال کی چیزوں کو سستارکھا جاتا ہے تاکہ عام آدمی پر مہنگائی کا بوجھ کم سے کم رکھا جا سکے جبکہ حکومت نے عام چیزوں کی قیمتوں پر ڈیوٹیز بڑھا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ عوام دوست حکومت نہیں رہی ۔کیونکہ 10فیصد ڈیوٹی بڑھنے سے عام استعمال کی بہت سے چیزوں کی قیمتیں بڑھ جائیں گی دوسری جانب عام مارکیٹوں میں فروخت ہونے والی روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا حکومت کے پاس کوئی بھی میکنیزم موجود نہیں ہے ایک ہی علاقہ کی مارکیٹوں میں دو تین قسم کے ریٹ چل رہے ہوتے ہیں حتی کہ عام سبزی کی دوکانوں پر فروخت ہونے والی سبزی اور پھل مارکیٹ کمیٹی کی ریٹ لسٹ سے کئی گنا زیادہ نرخوں پر فروخت ہوتے ہیں جبکہ کوئی بھی ادارہ ان دکانداروں کو پوچھنے والا نہیں اور نہ مارکیٹ کمیٹی کی ریٹ لسٹ کے مطابق سبزیاں اور پھلوں کی فروخت کو ممکن بنا سکا ہے۔ان حالات میں حکومت 10فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھا عوام کش فیصلہ ہے جس کو عوام اور تاجربرادری مسترد کرتی ہے۔