رضوان فاروق اور تاشفین ملک کی منفی سرگرمیوں کا ذمہ دار امریکہ ہے
تجزیہ: آفتاب احمد خان
امریکی ریاست کیلی فورنیا میں فائرنگ کے واقعہ میں چودہ افراد کی ہلاکت کے بعد امریکی تحقیقاتی ادارے حرکت میں آگئے‘ ان کے مطابق وہ ابتدائی تفتیش کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ تھا۔ اس کے بعد امریکی انتظامیہ بھی اس واقعہ کے حوالے سے فعال ہوگئی۔ ساتھ ہی ساتھ تینوں ملکوں امریکہ‘ سعودی عرب اور پاکستان میں یہ پتا چلانے کی کوشش کی گئی کہ اس واقعہ میں ملوث میاں بیوی دراصل کون تھے اور وہ دہشت گردوں کے ساتھی کیسے بنے؟
یہ دونوں امریکی باشندے تھے جو دہشت گردی کے واقعہ کے فوراً بعد پولیس فائرنگ میں مارے گئے‘ ان میں سید رضوان فاروق اور تاشفین ملک شامل ہیں۔ رضوان فاروق امریکی محکمہ صحت میں ہیلتھ انسپکٹر کی حیثیت سے ملازم تھا اور اس کی طرف سے فائرنگ اپنے رفقاء کار پر کی گئی جو ان کی کاؤنٹی کے‘ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے زیراہتمام ٹریننگ کے حوالے سے ایک سوشل سروسز سنٹر میں موجود تھے۔
اس کیس کی تحقیقات ایف بی آئی کر رہا ہے‘ اس ادارے کا کہنا ہے کہ سید رضوان فاروق اور تاشفین ملک نے حملہ کمانڈو طرز پر کیا‘ انہوں نے ماسک پہن رکھے تھے‘ فوجی قسم کی جیکٹیں بھی پہنی ہوئی تھیں‘ ان کے ہاتھوں میں رائفلیں اور دستی بم تھے۔ حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں متوسط طبقے کی آبادی میں رضوان فاروق کے گھر سے بارہ پائپ بم اور سیکڑوں گولیاں ملیں۔ اگر یہ سب کچھ درست ہے تو پھر اس کی ذمہ داری امریکی اداروں پر عائد ہوتی ہے‘ سعودی عرب یا پاکستان پر نہیں جہاں یہ میاں بیوی کبھی رہا کرتے تھے۔ اب وہ ایک مدت سے امریکی شہری تھے‘ ان کی منفی سرگرمیوں کی ذمہ داری خود امریکہ کو قبول کرنی چاہئے‘ پاکستان یا سعودی عرب پر دباؤ ڈالنے کا کوئی جواز نہیں۔
تاشفین ملک پیدا پاکستان میں ضرور ہوئی تھی مگر بعد ازاں طویل عرصہ سعودی عرب میں رہی اور پھر سید رضوان فاروق سے شادی کے بعد امریکی شہری بن گئی۔ اس سلسلے میں امریکی حکام نے تمام کارروائی ضوابط کے مطابق مکمل کی تھی۔ جب امریکہ نے دہشت گردی کے اس واقعہ کی تحقیقات کا دائرہ سعودی عرب اور پاکستان تک پھیلایا تو سعودی حکام نے آگاہ کیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مطابق تاشفین ملک کا نہ تو کبھی کسی جنگجو گروپ سے کوئی تعلق رہا ہے اور نہ ہی اس کا نام دہشت گردی کے حوالے سے زیر نگرانی رکھے جانے والے افراد کی کسی فہرست میں کبھی رہا‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کی راہ پر امریکہ میں رہتے ہوئے امریکی شہری کی حیثیت سے چلے۔ اسی طرح کا جواب پاکستانی ادارے بھی دے سکیں گے۔
امریکی معاشرے میں ہتھیاروں کی بہتات ہوگئی ہے اور اب وہاں ان کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ کچھ برسوں سے وہاں ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جن میں عام شہری نے فائرنگ کرکے اپنے ہم وطنوں کی جانیں لے لیں۔ امریکہ کے صرف تعلیمی اداروں کی بات کریں تو 2015ء کے گیارہ مہینوں میں وہاں کے سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں فائرنگ کے 52 واقعات ہوئے جن میں 30 افراد ہلاک اور 53 زخمی ہوگئے۔ یہ صورتحال امریکی انتظامیہ کیلئے بڑی پریشان کن ہے۔ وہاں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری بھی اسی پر ہے‘ یہ ذمہ داری پاکستان پر تھوپنا کسی بھی طرح قرین انصاف نہیں ہوگا۔