بھارت 16800 ارب روپے لگا کر کیا چیز بنارہا ہے؟ جان کر آپ کی حیرت اور پریشانی کی حد نہ رہے گی
نئی دلی (نیوز ڈیسک) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا دور خطرناک حرکتوں اور متنازع منصوبوں کے حوالے سے پہلے ہی کافی شہرت حاصل کر چکا ہے، لیکن اب انہوں نے بھارت کی تاریخ کے متنازع ترین منصوبے پر کام شروع کرنے کی بھی تیاری پکڑ لی ہے۔
ویب سائٹ seekerکی رپورٹ کے مطابق نریندر مودی ایک ایسے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی تیاری کررہے ہیں جو ان کے خیال میں بھارت کی تقدیر بدل دے گا، لیکن ماہرین کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ پانی کی کمی سے متاثرہ جنوبی ایشیاءکے خطے کے لئے خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ بھارت اس منصوبے کے تحت اپنے تمام دریاﺅں کو آپس میں منسلک کرکے تقریباً 8ہزار میل لمبے دریا کی شکل دینا چاہتا ہے، جو کہ اس وقت دنیا کے سب سے لمبے ”نیل دریا“ سے بھی دو گنا طویل ہو گا۔ اس منصوبے کی لاگت کا اندازہ 168 ارب ڈالر (تقریباً 168کھرب پاکستانی روپے) لگایا گیا ہے، لیکن چونکہ یہ طویل عرصے پر محیط منصوبہ ہوگا لہٰذا اس کی مالیت میں غیر معمولی اضافہ متوقع ہے۔
روس نے بھارت اور افغانستان کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات کی حمایت کر نے سے لاتعلقی کا اظہار کردیا
منصوبے کے تحت کوہ ہمالیہ کے 14 دریاﺅں اور میدانی علاقوں کے 16 دریاﺅں کو نہروں کے ذریعے ملایا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے 30 سے زائد نہریں بنائی جائیں گی جبکہ پورے آبی سسٹم پر 3000 چھوٹے، بڑے ڈیم بنائے جائیں گے۔ منصوبے کی حمایت کرنے والے ماہرین اور سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے پورے بھارت میں پانی کی ہر وقت فراہمی ممکن ہوجائے گی اور بنجر پڑی لاکھوں ایکڑ زمین آباد ہوجائے گی، جبکہ 34 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی بھی پیدا ہوگی۔
واضح رہے کہ اس منصوبے کا بنیادی خیال کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ 1858ءمیں برطانوی ملٹری انجینئر آرتھر تھامس نے پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا تھا۔ انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے پورے بھارت پر کنٹرول، دریائی رابطوں کے ذریعے نقل و حمل اور بنجر زمین کو آباد کرنے کے لئے اسے بہترین حل قرار دیا تھا۔ ان کے بعد متعدد ادوار میں بھی یہ خیال سامنے آتا رہا لیکن اس کی بے پناہ لاگت اور مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکامی کے خدشات نے کبھی بھی اسے زیادہ مقبول نہیں ہونے دیا۔ وزیراعظم نریندر مودی کے دور میں اس منصوبے کے بارے میں جوش و خروش بے حد بڑھ گیا ہے اور اس بات کے آثار نظر آرہے ہیں کہ وہ جلد ہی اس کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کرسکتے ہیں۔
منصوبے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اسے مکمل کرنے میں کئی دہائیاں لگیں گی، جس کے دوران اخراجات کئی گنا بڑھ جائیں گے۔ مالی پہلوﺅں کے علاوہ دیگر اہم مسائل کی جانب اشارہ بھی کیا جارہا ہے۔ آبی وسائل کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نظریہ ہی غلط ہے کہ کسی دریا میں ضرورت سے زیادہ پانی ہوسکتا ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ دریا اپنے قدرتی بہاﺅ کے مطابق پانی کی منتقلی کا ذریعہ ہوتے ہیں اور مصنوعی طریقے سے ملک بھر کے دریاﺅں کے بہاﺅ میں ردوبدل کرنے کی کوشش پورے آبی نظام کو درہم برہم کرسکتی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن دریاﺅں میں آج زیادہ پانی ہے ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ کل ان میں پانی کم ہوجائے، لہٰذا ایک دریا کا پانی دوسرے دریا کی جانب منتقل کرنے کا منصوبہ ناکامی اور نئے مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ ان تمام خدشات کے پیش نظر سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اربوں ڈالر کی لاگت سے تیار کیا گیا منصوبہ فائدے کی بجائے اُلٹا نقصان کا سبب بن گیا تو کیا ہوگا۔