ناصر سعید اچھی یادیں چھوڑ گئے
زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کون کب، کہاں اور کیسے اپنے معبود حقیقی سے جا ملے،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو لوگ دوسروں کے کام آتے ہیں، اپنے شعبے میں مسلسل جدوجہد سے کوئی مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کے جانے کا دکھ ضرور محسوس کیا جاتا ہے، ایسے ہی افراد اور شخصیات میں ناصر سعید کا نام بھی آتا ہے جس نے پہلی سیڑھی سے اپنے سفر کا آغاز کیااور بہت کم مدت میں مسلسل محنت، لگن، اپنے بزرگوں اور دوستوں کا تعاون حاصل کر کے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا نائب صدر اور صدر لاہور تاجر اتحاد مسلم لیگ (ن) کے عہدے پر فائز ہو گیا۔
ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ اسے ٹی وی ڈراموں سے دلچسپی تھی۔ مختلف ڈراموں میں مختلف کردار بھی ادا کئے، لیکن پھر چیمبر لین روڈ پر تاجر انہ سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگا اور آہستہ آہستہ اپنا دائرہ وسیع کرتے ہوئے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی سیاست میں داخل ہوگیا۔ پاکستان میں ویسے تو ہر چیمبر بہت اہمیت رکھتا ہے، لیکن لاہور چیمبر کی یہ خصوصیت ہے کہ یہاں پر محنت کرنے والے کو پھل ضرور ملتا ہے۔ اب اسحاق ڈار ہو یا شہباز شریف لاہور چیمبر نے ہر کسی کی صلاحیتوں کو نکھارا ہے۔ ناصر سعید کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ لاہور چیمبر میں مثبت سیاست کرنے اور فاؤنڈر گروپ کیمشوروں سے اس نے اپنا حلقہ یاراں وسیع کرلیا اور تاجر برادری کے مسائل حل کرنے کے لئے دامے،درمے، سخنے آگے بڑھنے لگا اور خدمت کو اپنا نصب العین بنالیا۔وقت گزرتا گیا اور ناصر سعید کم عرصے میں ہی ایگزیکٹو ممبر سے ترقی کر کے نائب صدر بننے میں کامیاب ہو گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اپنے تاجرونگ کے لئے ایسی ہی مثالی قیادت کی ضرورت تھی جو تاجربرادری کے مسائل کا ادراک رکھنے کے علاوہ انہیں حل کروانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو، چنانچہ عرفان اقبال شیخ کو چیئرمین اور ناصر سعید کو صدر بنادیا گیا۔ دونوں کو پوری تاجر برادری کا مکمل تعاون حاصل تھا جس کی وجہ سے تاجر برادری کے مسائل پیدا ہوتے اور حل ہو جاتے۔
گلبرگ بورڈ میں تاجر لیڈروں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کے سلسلے میں کافی پیش رفت ہو چکی تھی۔ عرفان اقبال شیخ اور ناصر سعید نے اس سلسلے میں لاہور چیمبر کے سابق ایگزیکٹو ممبر لاہور چیمبر اور حفیظ سینٹر کے خدمت گروپ کے جنرل سیکرٹری شیخ فیاض اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ایک اہم میٹنگحفیظ سینٹر میں رکھی، جہاں گلبرگ بورڈ کے مسائل زیربحث آتے تھے، مقام تھا حفیظ سینٹر کی پانچویں منزل پر بنا ہوا خدمت گروپ کا دفتر جہاں ناصر سعید پہلے بھی بہت مرتبہ آ چکا تھا، لیکن چند روز پہلے منعقد ہونے والی میٹنگ کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ ناصر سعید کے لئے دنیا میں آخری میٹنگ ثابت ہوگی۔خدمت گروپ کے جنرل سیکرٹری شیخ فیاض نے بتایا، حفیظ سینٹر میں چار لفٹیں موجود ہیں۔ جب ناصر سعید اور عرفان اقبال شیخ آئے تو حفیظ سینٹر کے صدر دروازے پران کا زبر دست استقبال کیا گیا۔ ڈھول کی تھاپ میں ہم اپنے مہمانوں کو لے کر اوپر آنے لگے۔ لفٹ سے اس لئے نہیںآئے کہ حفیظ سینٹر کی روایت ہے کہ ہر آنے والے معزز لیڈر کو سیڑھیوں سے اوپر لایا جاتا ہے۔ ہر منزل پر گل پاشی کی جاتی ہے اور تاجر برادری انہیں خوش آمدید کہتی ہے، یوں وہ حفیظ سینٹر کی چاروں منزلوں پر استقبال کے بعد پانچویں منزل پر خدمت گروپ کے دفتر پہنچتے ہیں۔ سٹیج پر میں ناصر سعید کے بالکل ساتھ بیٹھا ہوا تھا، مختلف چینلوں کے کیمرے کوریج کررہے تھے، ناصر سعید نے میرے کان میں دو چار باتیں کیں اور پھر سیدھا ہو کر بیٹھا تو یکایک اس نے یکے بعد دیگرے چار جھٹکے لئے اور پانچویں جھٹکے میں اس کا سر ایک طرف جھک گیا۔ میں نے فوراً اسے سنبھالا اور سینے پر مالش کی تاکہ دل چل پڑے، لیکن دل تو آناً فاناً جواب دے چکا تھا، پھر بھی ہم نے اسے اٹھایا اور فوراً انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہنچے ،لیکن بہت دیر ہو چکی تھی، چند سیکنڈ کے لئے پڑنے والے دل کے دورے نے ناصر سعید کو اپنے خالقِ حقیقی سے ملادیا تھا۔
اس کے جانے کے بعد احساس ہوا کہ تاجر برادری میں وہ کتنا مقبول تھا اور کیوں مقبول تھا؟ اس کا تجزیہ فاؤنڈر گروپ کے لیڈر افتخار علی ملک نے یوں کیا۔فاؤنڈر گروپ کی شروع سے عادت ہے کہ اس کے تجربہ کار لیڈر آنے والے ینگ لیڈرز کو تاجر لیڈر بننے کی باقاعدہ عملی تربیت مہیا کرتے ہیں۔ ناصر سعید کا شمار فاؤنڈر گروپ کے ینگ لیڈرز میں ہو تا تھا۔ اس نے خدمت اور حسنِ اخلاق سے تاجر برادری کی ایک بڑی اکثریت کو اپنا دوست اور ہمنوا بنا لیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ لیڈر وہی ہوتا ہے جس کیلئے ووٹر گھر ، دفتر یا دکان سے نکلیں اور اپنا وقت اسے دیں۔ اس بات کوبہت اچھے طریقے سے فاؤنڈر نے اسے سمجھا دیا تھا، اب یہ اس کی قابلیت اور ذہانت تھی کہ تاجر برادری اسے ہاتھوں ہاتھ لیتی تھی، کیوں لیتی تھی؟ صرف اسی وجہ سے کہ وہ تاجر برادری کے مسائل حل کرنے کے لئے فوراً سرگرم ہو جاتا تھا اور جب تک مسئلہ حل نہ ہو جائے، تب تک چین سے نہیں بیٹھتا تھا، اسے خوب سے خوب ترکی جستجو رہتی تھی، لاہور چیمبر میں نام بنانے کے بعد اس کی خواہش تھی کہ فیڈریشن کی سیاست میں بھی اپنا نام بنائے، اس کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین تھا کہ اگر ناصر سعید کو فیڈریشن میں آنے کا موقع دیا جائے تو یونائٹیڈ بزنس گروپ کو مایوس نہیں کرے گا،لیکن افسوس قدرت نے اسے مزید مہلت نہ دی کہ وہ چیمبر کے تجربے کو فیڈریشن میں لاکر مزید آگے بڑھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ناصر سعید جیسا ینگ لیڈر اپنی بہت اچھی یادیں چھوڑ گیا ہے اور آنے والے نئے تاجر اس کے نقشِ قدم پر چل کر ترقی کی نئی منزلیں طے کریں گے، کیونکہ وہ ینگ تاجروں کے لئے ایک بہترین رول ماڈل تھا۔*