مردم شماری سے مردم شناسی تک!
خواتین و حضرات! ملک میں مردم شماری کرانے میں طویل عرصے سے لیت و لعل سے کام لینے والی حکومت کے سربراہ کو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے آخر کار طلب کرنے کی ٹھان لی ہے، اگر حکومت 7 دسمبر تک پندرہ مارچ تا 15 مئی 2017ء تک مردم شماری مکمل کرنے کا شیڈول عدالت عالیہ میں جمع نہیں کراتی۔ مردم شماری نہ کرانے کی نااہلیت دونوں حکومتوں، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) پر عائد ہوتی ہے، جنہوں نے بہت کمزور عذر کی بنا پر اسے التوا میں ڈالے رکھا ۔ محترم چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے صاف صاف کہہ دیا ہے: ’’حکومت مردم شماری نہ کرا کر پورے ملک سے مذاق کر رہی ہے، اور یہ کہ اس پر تمام سیاسی جماعتیں خاموش ہیں‘‘۔۔۔ ورنہ عام حالات میں یہی سیاسی جماعتیں بات بات پر حکومت کو عدالت میں گھسیٹنے کی دھمکی دیتی ہیں اور اکثر عدالت میں لے بھی آتی ہیں۔ ایک عمران خان کی مثال ہی کافی ہے (یہ ہم نے کہا ہے، عدالت نے نہیں) عدالت نے مزید کہا ہے کہ حکومت کی مردم شماری کرانے کی نیت ہی نہیں، ملکی پالیسیاں ہوا میں بن رہی ہیں۔ملک میں چھٹی مردم شماری 2008ء میں ہو جانی چاہئے تھی جو ملک کے آئین کے تحت بھی ضروری تھی، مگر آٹھ سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی حکومتیں اس اہم کام کو مکمل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اب سپریم کورٹ کی جانب سے حکم جاری ہونے کے بعد حکومت پر یہ لازم ہو گیا کہ وہ دیئے گئے ٹائم فریم پر مردم شماری مکمل کرائے۔
خواتین و حضرات! ملک میں مردم شماری کرانا اب ایک معاشی و معاشرتی ضرورت سے زیادہ سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ کم از کم ایک ایسا ڈھانچہ تو تیار کر لیتی کہ مردم شماری کو جدید کمپیوٹرائز طریقے سے ڈیٹا جمع کرنے کا کام مکمل کر لیا جاتا جس پر کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ وگرنہ مینوئل طریقے سے اعداد و شمار جمع کرنے پر سو اعتراض اٹھائے جا رہے ہیں۔ ملک کی سیاسی جماعتیں، لسانی گروپ، مذہبی جماعتیں اور علاقائی تنظیمیں مردم شماری کو اپنے مختلف مخصوص مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہیں اور ’’نمبر گیم‘‘ کے ذریعے‘‘ پاور آف پاپولیشن استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ مثلاً: ’’بعض لسانی گروپ صوبے میں اپنی عددی اکثریت ثابت کرنے کے لئے مردم شماری کو ہائی جیک کرنا چاہتے، ہیں‘‘۔۔۔ سندھ اسمبلی میں ممبران کی رائے: ’’اگر افغان مہاجرین کو موجودہ مردم شماری میں شامل کیا گیا تو ہم اس کے نتائج تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ پشتون ذرائع: ’’بعض سیاسی پارٹیاں اپنی صوبائی اکثریت ثابت کرنے اور بجٹ میں زیادہ حصہ طلب کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں‘‘: ذرائع: ’’آئی ڈی پی کو بھی مردم شماری میں شامل کرنے کی حکمت عملی تیار کی جائے‘‘۔ شہریوں کا مطالبہ: ’’چھٹی مردم شماری کرانے کے تمام انتظامات مکمل ہیں‘‘۔۔۔ چیف الیکشن کمشنر۔۔۔ ’’موجودہ سیاسی حالات اور سیکیورٹی کے مسائل کی بنا پر مردم شماری کو ملتوی کیا گیا ہے‘‘۔ کونسل آف کامن انٹریسٹ اور پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کا کہنا ہے کہ ’’مردم شماری کے انعقاد کے بغیر انتخابات کرانا قوم کے ساتھ مذاق کرنا ہے‘‘۔
مردم شماری کا معاشی ترقی سے بہت گہراتعلق ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور سیاسی معاملات بھی مردم شماری سے منسلک اور مشروط ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تمام تر معاشی سرگرمیاں، منصوبے، سالانہ بجٹ اور معاشی سروے جیسے امور اندازوں اور تخمینہ پر ہی چل رہے ہیں۔ تاہم انتخابات جیسے عمل کو محض اندازوں کی بنیادپر منعقد کر کے یا 18 سال پہلے کی آبادی کے ڈھانچے پر وضع کردہ انتخابی حلقوں کے تحت کرانا، سیاسی اور حکومتی غلطی ہو گی۔ حلقہ بندی انتخابات کے عمل کا بہت اہم، پیچیدہ اور حساس معاملہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات ہار جیت کا انحصار حلقہ بندی کی غلط نشاندہی پر ہی ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی صوبے یا ضلع میں صوبائی یا قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کا تعلق اور تعین بھی آبادی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ایسے میں گزشتہ 18 سال کے اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے ایک شفاف انتخابات کا انعقاد کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔ مردم شماری، یوں انتخابات کے انعقاد کی بنیادی ضرورت ٹھہرتی ہے۔ مرکز، صوبوں کو قومی آمدنی سے ان کا مالی حصہ ادا کرتا ہے۔ اس کا تعین بھی آبادی اور لوگوں کی تعداد پر منحصر ہوتا ہے۔ گویا گزشتہ کئی سال سے یہ کام بھی محض اندازوں پر کیا جا رہا ہے۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ملک میں افغان مہاجرین کی اب کتنی تعداد ہے، کتنوں نے قومی شناختی، کارڈ بنوا کر شہریت حاصل کر لی ہے، کتنے لوگ، سیلاب، زلزلہ اور دیگر معاشی، معاشرتی اور سیاسی بنیادوں پر نقل مکانی کر چکے ہیں اور اب کہاں ہیں اور کس ضلع یا صوبے کی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں؟ یہ مسئلہ سیاسی جماعتوں کے سیاسی ایجنڈے پر سر فہرست ہوگا، جب بھی مردم شماری یا انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔ افواج پاکستان کی نگرانی یا کنٹرول میں مردم شماری کرانا بھی ایک مسئلہ ہے۔
خواتین و حضرات! یہ تو مردم شماری کی بات تھی۔ پاکستان جیسے ملک میں مردم شناسی بھی مردم شماری کی طرح اہم معاملہ ہے جس کی حقیقت انتخابات میں سامنے آتی ہے۔ مردم شماری اور انتخابات کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور دونوں معاملات توجہ طلب ہیں۔ ہمارے ہاں 2017ء میں مردم شماری ہونی ہے، جبکہ 2018ء میں انتخابات ہوں گے۔ یوں بھی مردم شماری کے نتائج اور Findings تیار کرنے میں سال بھر کا عرصہ درکار ہوتا ہے، لہٰذا ان دو عوامل کا ٹکراؤ ایک بڑا چیلنج ہے۔ مردم شماری میں لوگوں کو گنا جاتا ہے اور انتخابات میں لوگوں کو گننے کے ساتھ تولا بھی جاتا ہے۔ لوگوں کے گننے میں تو سائنسی بنیادوں پر کافی حد تک درستگی کی توقع کی جا سکتی ہے، مگر لوگوں کو تولنے میں عوام ہمیشہ سے غلطی کرتے چلے آئے ہیں، جس کا ایک بڑا ثبوت حکومتوں کے خلاف الزامات، احتجاج اور مقدمات ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام اپنے رہنماؤں کو پہچاننے میں اب غلطی نہیں کریں گے، کیونکہ تین بڑی سیاسی جماعتوں کے قومی اور صوبائی سطح پر حکومت کرنے اور عوام کی خدمات کرنے کے تجربے سے وہ خوب آشنا ہو چکے ہیں۔ بعض لوگ جو اپنے آپ کو منتخب کروا لیا کرتے تھے، شاید اب اتنی آسانی سے یہ کام نہ کر سکیں۔ عوام اب مردم شناس بھی ہو چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ۔۔۔ ’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘‘۔۔۔ تاہم بہت کچھ مردم شماری پر انحصار کرتا ہے، کیونکہ یار لوگ اس میں بھی ڈنڈی مار کر اپنی پسند کی حلقہ بندیاں کروائیں گے۔ آبادی کا ہیر پھیر سیاسی مفادات کے طابع ہوگا۔ مردم شماری اور مردم شناسی، تعداد اور معیارکا کھیل ہے اور دونوں کاموں میں شفافیت اور غیر جانبداری کا بہت عمل دخل ہے۔ ایک میں بندوں کو گنا جاتا ہے اور دوسرے میں گننے کے ساتھ ساتھ تولا بھی جاتا ہے۔ اقبالؒ نے یہ خدشہ بہت پہلے ظاہر کر دیا تھا:
جمہوریت ایک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا
وقت کا تقاضا اور ملکی سالمیت و ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم دونوں کام موثر طور پر کریں۔ مردم شماری سے مردم شناسی تک کا عمل، مستحکم و مضبوط پاکستان کی بنیاد ہے۔ *