کھلا ڈھلا اوربے باک انداز ، ٹرمپ سے توقع کی جاسکتی ہے ، وہ کشمیر کے مسئلے کا بھی حل کر گزریں گے

کھلا ڈھلا اوربے باک انداز ، ٹرمپ سے توقع کی جاسکتی ہے ، وہ کشمیر کے مسئلے کا ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

واشنگٹن (اظہر زمان، خصوصی رپورٹ) پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں اتار چڑھاؤ، قربتوں اور فاصلوں اور درپیش چیلنجز کے باوجود یہ ثابت ہوچکا ہے کہ دونوں ممالک کیلئے ایک دوسرے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ حالیہ امریکی صدارتی انتخابات میں نامزدگی سے لے کر آخری نتائج تک پاکستانی حکومت، عوام اور میڈیا نے جتنی دلچسپی لی وہ شاید امریکہ کو چھوڑ کر کہیں اور اتنی زیادہ نظر نہیں آئی۔ پاکستان اور تائیوان وہ پہلے ممالک ہیں جہاں امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور ان کے انتظامی سربراہوں سے انتہائی خوشگوار ماحول میں بات چیت کی۔ کہا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف کی منتخب صدر سے گفتگو کی تفصیل جاری کرکے حکومت پاکستان نے پروٹوکول کیخلاف ورزی کی لیکن منتخب صدر کی ٹیم نے بھی تو اس کا خلاصہ جاری کیا۔ دراصل یہ رابطہ اور اس کے دوران اظہار خیال نواز شریف کی حکومت کیلئے بہت اہم تھا جسے نشر کرنے کیلئے وہ پروٹوکول کی چھوٹی موٹی خلاف ورزی کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتی۔ روایتی طور پر پاکستانی عوام کسی خاص وقت کی حکومت کے امریکی اسٹیبلشمنٹ میں اثر و نفوذ سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ اس وقت جب نواز شریف کی حکومت پانامہ کیس سمیت دیگر داخلی مسائل میں گھری ہوئی ہے ایسے روابط سازگار نفسیاتی ماحول پیدا کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ لکھاری کے نزدیک اگرچہ یہ ’’متھ‘‘ہے لیکن پاکستان میں یہ تاثر ہمیشہ سے موجود ہے کہ پاکستانی حکومتوں کو بنانے، بگاڑنے، گرانے یا مضبوط بنانے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ نہ صرف گہری دلچسپی لیتی ہے بلکہ عملی کردار بھی ادا کرتی ہے۔ قدرتی طور پر منتخب صدر کی وزیراعظم نواز شریف سے بات چیت کو پاکستانی حکومت نے بڑھا چڑھا کر اور کچھ رنگ امیزی کے ساتھ پیش کیا لیکن وہ سب باتیں درست تھیں۔ منتخب صدر کی ٹیم نے اس کا جو ورژن جاری کیا اس میں اتنا جوش و خروش نہیں تھا لیکن کسی بات کی تردید نہیں تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے اور کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے کردار ادا کرے گی۔ جس طرح کا ڈونلڈ ٹرمپ کا کھلا ڈھلا اور بے باک انداز ہے ان سے توقع کی جاسکتی ہے وہ ڈپلومیسی کے تقاضوں کو جزوی طور پر نظرانداز کرتے ہوئے آگے بڑھ کر وہ کر گزریں جس کی پاکستان امریکی قیادت سے توقع کرتا ہے۔ پاکستان شاید پہلا ملک ہے جس کی حکومت کے نمائندے انتقال اقتدار کے اس اہم مرحلے میں امریکہ کی سرزمین پر رخصت ہونے والی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ 20 جنوری کو چارج سنبھالنے والی ٹیم سے مذاکرات کر رہی ہے۔ وزیراعظم کیلئے خارجہ امور کے خصوصی معاون طارق فاطمی خصوصی طور پر اس کام کیلئے اتوار کے روز واشنگٹن پہنچے اور وہاں موجود پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی کو ہمراہ لیکر ’’جانے والوں‘‘ اور ’’آنے والوں‘‘ سے Notes Compare کرکے اس امر کو یقینی بنانے میں مصروف ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو صحیح پس منظر میں سمجھ کر اختلافات کے باوجود آگے بڑھانے کا موقع دیا جائے۔ وہ یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر کچھ اختلافات یا چیلنجز موجود ہیں تو انہیں دور کرنے کیلئے وہ آمادہ ضرور ہیں لیکن امریکہ کو بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے جوتوں میں پاؤں رکھ کر زمینی حقائق کو سمجھنے کیلئے آمادہ ہونا چاہئے۔ طارق فاطمی نے سوموار کی سہ پہر سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ڈپٹی سیکرٹری اینٹونی بلنکن سے ملاقات کی جنہیں ان کا ہم منصب کہا جاسکتا ہے۔ پاکستانی سفیر کے ہمراہ ہونے والی اس بات چیت میں دونوں اطراف نے اس امر کو یقینی بنایا کہ نئی حکومت بننے کے بعد بھی دونوں ممالک کے درمیان سٹریٹجک ڈائیلاگ کے مختلف شعبوں میں کام کی رفتار کو طے شدہ طریق کار کے مطابق آگے بڑھایا جائے گا۔ ممکن ہے ڈپٹی سیکرٹری سمیت سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی اعلیٰ قیادت تبدیل ہو جائے لیکن امریکی حکومت کے وعدوں کی فائلیں تو یقیناًموجود رہیں گی ان پر نئی انتظامیہ عملدرآمد کی پابند ہوگی۔ دونوں اطراف سے سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے علاوہ دفاع اور اقتصادی تعاون کے شعبوں میں ہونے والی متعدد کامیابیوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔ توقع کے مطابق دونوں اطراف سے تسلیم کیا کہ ان کے تعلقات نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے امن کیلئے بہت اہمیت رکھتے ہیں اور آئندہ انتظامیہ کے دور میں بھی اسی طرح مضبوط رہنے چاہئیں۔ ڈپٹی سیکرٹری نے خطے میں امن اور استحکام کیلئے پاکستانی کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ امرتسر میں ایشیا ہارٹ کانفرنس میں شرکت کرکے پاکستان نے ایک مثبت سگنل دیا ہے۔ قبل ازیں پاکستان نے برسلز کانفرنس میں افغانستان کی ترقی کیلئے جو 50 کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا اس کو بھی ہر سطح پر سراہا گیا۔ مسٹر بلنکن نے اس امر کی تعریف کی کہ پاکستان پچھلے چار عشروں سے افغان مہاجروں کی میزبانی کر رہا ہے۔ اس ملاقات میں لائن آف کنٹرول اور بھارت کے ساتھ ورکنگ باؤنڈری کی صورت حال پر بھی بات چیت ہوئی۔ پاکستانی وفد نے حالیہ عرصے میں بھارتی حکومت کی سیز فائر کی خلاف ورزیوں اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے کے واقعات سے بھی امریکی حکام کو آگاہ کیا۔ طارق فاطمی بنیادی طور پر ٹرمپ کی انتقال اقتدار کی ٹیم سے مل کر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے امریکہ آئے ہیں اور اب وہ اس ٹیم کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں جن کی تفصیلات کا انتظار ہے۔

مزید :

صفحہ اول -