خواب سے تعبیر تک

خواب سے تعبیر تک
خواب سے تعبیر تک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سیاسی ادوار میں بعض ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں جو مثال بن جاتے ہیں اور بعض فقرے ضرب المثل کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ حروں کے روحانی پیشوا پیر علی مردان شاہ پیر پگارو (مرحوم) کا یہ فقرہ ہم نے درجنوں بار رپورٹ کیا اور انہوں نے بھی ہر بار دہرایا وہ کہتے ’’جو بچے گا، وہی حکومت کرے گا‘‘ اس سے ان کی مراد کسی انقلاب کی ہوتی تھی لیکن پس منظر میں حکومت وقت کو خبردار کرنا ہوتا تھا کہ یہ بھی ممکن ہے۔ تاہم ایسا وقت کبھی نہ آ سکا۔ البتہ اللہؐ کی طرف رخصتی سے پہلے والے دنوں میں انہوں نے ذرا تبدیلی کی اور کہنے لگے ’’ جلد ہی درود شریف والوں کا وقت آنے والا ہے‘‘ اس پر بھی وہ واضح بات نہیں کرتے تھے اور یہی دہراتے تھے، چنانچہ کراچی میں سنی تحریک والے مطمئن تھے کہ پیرپگارو بلاوجہ ایسی بات نہیں کرتے اور ہم درود والے ہیں۔

وہ تو سیاست میں آئے ہی تھے کہ یہاں تحریک لبیک یا رسولؐ اللہ کے نام سے قائم جماعت نے از خود سمجھ لیا کہ وہ سیاسی میدان میں بھی کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ اس جماعت کے بھی جلدہی دو حصے ہو گئے غالباً قیادت کا پھڈا تھا، علامہ خادم حسین رضوی اور علامہ آصف جلالی میں اختلافات شدت اختیار کر گئے اور یہ الگ الگ ہو گئے۔ اب بھی یہی صورت حال ہے۔

علامہ خادم حسین رضوی فیض آباد دھرنے کی وجہ سے روشنی میں آئے اور دھرنا ختم کرانے کے لئے ان کے ساتھ معاہدہ کیا گیا، ان کی یہ فتح ان کے لئے مسئلہ بن گئی اور بالآخر اسی زعم میں وہ سب کچھ گنوا بیٹھے آج کل نظر بند ہیں۔ یوں پیرپگارو کی بات ایک حد تک ہی پوری ہو سکی۔
یہ یوں یاد آ گیا کہ فرزند راولپنڈی شیخ رشید کافی دنوں کے بعد چھپرپھاڑ کر بولے ہیں، وہ کہتے ہیں ۔

آصف علی زرداری نے پگڑی پہن یا باندھ لی ہے اور اب وہ جیل جانے والے ہیں۔ اس سے پہلے خود آصف علی زرداری نے کہا تھا وہ جیل جانے سے خوفزدہ نہیں ہیں، پارٹی رہنماؤں کو ان کی ہدایت ہے کہ وہ بھی خود کو تیار رکھیں۔

آصف زرداری نے تو یوں فقرہ کہا’’ہم تو جیل جانے سے خوفزدہ نہیں اگر موجودہ حضرات ہمیں جیل بھیجتے ہیں تو پھر آنے والے عمران خان کو جیل بھیجیں گے۔ہم نے جیل کاٹ لی، کیا عمران خان بھی ایسا کر سکیں گے‘‘؟
اب جیل جیل شروع کر دیا گیا۔ عمران خان کو تو افسوس ہے کہ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے۔وہ کہتے ہیں ’’اگر نیب میرے ماتحت ہوتا تو اب تک پچاس لوگ جیل میں ہوتے وہ اب بھی کرپشن ہی کو موضوع بنائے ہوئے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم احتساب کے حوالے سے زیادہ پرجوش ہیں اور ان کا خیال ہے کہ کرپشن والوں کو براہ راست جیل میں ڈال کر تحقیقات کی جائے اور جب وہ یہ کہتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ ان کی طرف سے قانونی سقم کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بار بار دہرایا ہے ، تاہم یہ فراموش کر گئے کہ ان کے پاس جو اختیار ہیں بہت وسیع نہیں ہیں۔ امور مملکت آئین اور قانون کی بناپر چلتے ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ آپ جو کہہ دیں وہ ہو بھی جائے۔

حال ہی میں جن خیالات کا اظہار وزیراعظم پاکستان نے کیا اس سے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ وہ درحقیقت کپتان ہی کے اختیارات چاہتے ہیں کہ جب ٹیم لے کر میدان میں اتریں تو انہی کا حکم چلے لیکن آئین اور قانون کے مطابق ایسا ممکن نہیں حدود و قیود کو ملحوظ رکھناپڑے گا حال ہی میں ان کو بعض امور پر رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے برا منایا، ان کو چاہیے تھا کہ زلفی بخاری کا تقرر کرتے وقت آئینی رائے حاصل کر لیتے اور ایسا ہی گورنر ہاؤس لاہور کی دیواریں توڑنے کے لئے زبانی حکم جاری کر دیا، جسے لاہور ہائیکورٹ نے معطل کرکے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

اسی طرح زلفی بخاری بھی دہری شہریت کے حوالے سے تاریخ بھگت رہے ہیں۔اس لئے بات کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے جیسے میاں منظور وٹو کرتے ہیں کہ ان سے نام پوچھا جائے تو بہت سوچ سمجھ کر جواب دیتے ہیں۔
بات کو ختم کرنے سے پہلے ہم آپ کو ضرب المثل بن جانے والا ایک اور واقعہ سناتے ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بہت خوش ہیں، ان کو من مرضی کی وزارت ملی۔ انہوں نے تو یہ وزارت نہ ملنے پر پیپلز پارٹی چھوڑ دی تھی۔ آج کل وہ سنجیدہ بھی دکھائی دیتے ہیں اور فقرے بازی سے گریز کرکے خود کو نمبر2کی پوزیشن پر مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور بات چبا چبا کر کرتے ہیں۔

اس بناء پر یہ بھی یاد آیا کہ وہ جب پیپلز پارٹی میں تھے تو بھی ایسے ہی تھے لیکن انہوں نے سابقہ دور میں اور اب کابینہ کی تشکیل سے پہلے خوب گرجدار تقریریں اور میڈیا سے بات کی تاہم اب وہ وزیرخارجہ ہیں اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔

اگرچہ زبان سے نہیں کہتے کہ کچھ یاد آ جاتا ہے۔ ان کے والد سجاد قریشی پنجاب کے گورنر ہوئے تو خوشی منائی گئی لوگ (خصوصاً سرائیکی پٹی والے)ان سے ملتے اور اپنا کام بتا کر درخواست کرتے تو جواب ملتا، ’’اللہؐ کریسی‘‘ اب یہ معلوم نہیں کہ شاہ محمود کیا کہتے ہیں کہ ہم رپورٹنگ نہیں کرتے اس لئے رابطہ بھی نہیں ہے!

مزید :

رائے -کالم -