چیئر مین یف بی آر ، ممبر انکم ٹیکس کو توہین عدالت کے نوٹس جاری ، بیرون ملک اکاؤنٹس ، علیمہ خان کیخلاف کارروائی پر 13دسمبر تک رپورٹ طلب

چیئر مین یف بی آر ، ممبر انکم ٹیکس کو توہین عدالت کے نوٹس جاری ، بیرون ملک ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک،این این آئی،آن لائن)سپریم کورٹ نے بیرون ملک اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کے خلاف کارروائی پر 13 دسمبر تک رپورٹ طلب کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر اور ممبر انکم ٹیکس کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیے۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں بیرون ملک اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا دبئی میں جائیداد خریدنے والے 20 افراد کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا، باقی جن پاکستانیوں نے جائیدادیں خریدیں ان کے خلاف کیا کارروائی ہو رہی ہے۔اس موقع پر چیئرمین ایف بی آر نے عدالت کو بتایا دبئی میں جائیداد خریدنے والوں کے معاملے پر سپیشل زونز بنا رہے ہیں اور آف شور اکاؤنٹس سے ڈیل کرنے کیلئے خصوصی زونز بن گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا سپیشل کمیٹی کی رپورٹ کدھر ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا جو 20 لوگ ایف بی آر میں پیش ہوئے ان پر رپورٹ کیا ہے اور ایف بی آر اپنی اب تک کی کارکردگی بتائے۔ممبر ایف بی آر نے کہا کہ 20 لوگوں میں سے 14 کے خلاف مزید کارروائی تجویز کی ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا وقار احمد کے خلاف مزید تحقیقات کیوں تجویز کی گئی، جس پر وکیل نے کہا وقار احمد ایف بی آر میں پیش ہوئے دوبارہ بلایا ہی نہیں گیا۔ممبر ایف بی آر نے مؤقف اختیار کیا کہ اثاثوں کی تصدیق کرنا فیلڈ افسران کا کام ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا لگتا ہے ایف بی آر کو عدالت کا حکم سمجھ میں ہی نہیں آیا، عدالت نے جوائنٹ ٹیم تشکیل دی تھی جسے 20 افراد کے اثاثوں کی تصدیق کرنی تھی۔ممبر ایف بی آر نے عدالت کو بتایا نوشاد احمد نے 7 جائیدادیں ظاہر کیں اور 6 ایف آئی اے کے سامنے ظاہر کیں جبکہ ان کی غیر ملکی جائیدادوں کا آڈٹ ہو رہا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا عدالت نے آپ کو آڈٹ کر انے کا نہیں کہا تھا۔عدالت نے عدالتی حکم عدولی پر چیئرمین اور ممبر ایف بی آر کو توہین عدالت کا شو کاز جاری کرتے ہوئے 3 روز میں جواب طلب کرلیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ لوگ کیس لٹکانا چاہتے ہیں، ایف بی آر جان بوجھ کر معاملے کو لٹکانے سمیت معاملے میں ابہام پیدا کرنا چاہتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا علیمہ خان کے کیس کا کیا ہوا جس پر ڈی جی ایف آئی اے نے کہا عدالت منگل تک مہلت دے دے، تین دن میں کمیٹی بنا کر عدالت کو تفصیلات دیں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کیوں نہ ممبر آپریشن کو معطل کر دیں، ایف بی آر کو عزت نہیں کرانی تو ہم نہیں کریں گے، کیا ایف بی آر باہر پیسہ لیجانے والوں کو بچانا چاہتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا علیمہ خان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی جس پر ممبر آپریشن ایف بی آر نے کہا علیمہ خان کے خلاف لاہور آفس کو کارروائی کا کہہ دیا ہے جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ایف بی آر کو لاہور نہیں یہاں کارروائی کا کہا تھا۔چیف جسٹس نے کہا ممبر آپریشن آپ اس ملک کے کیسے افسر ہیں، آپ لوگ عدالت کو کنفیوژکرنا چاہتے ہیں، لگتا ہے ایف بی آر خود بھی ملا ہوا ہے، کیس میں تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔عدالت نے ایف بی آر اور ایف آئی اے کی سپیشل کمیٹی کی کارکردگی پر اظہار عدم اطمینان کیا اور کہا کہ عدالتی حکم پر عمل نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کیس میں تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں، ایف بی آر نے ایف آئی اے کی محنت بھی سردخانے میں ڈال دی۔عدالت نے علیمہ خان کے خلاف کارروائی پر 13 دسمبر تک رپورٹ طلب کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر اور ممبر انکم ٹیکس کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کردیے اور انہیں 3 روز میں شوکاز کا جواب دینے کی ہدایت کی ہے۔سپریم کورٹ میں دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں4رکنی بنچ نے کی، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈیم بنانے کا عدالتی فیصلہ حتمی ہو چکا ہے، فیصلے کے خلاف نظرثانی کی کوئی درخواست نہیں آئی، ڈیم کی تعمیر کے جائزے کیلئے عمل درآمد بنچ تشکیل دیا ہے، واپڈا بتائے کہ ڈیم کی تعمیر کے مراحل اور ٹائم فریم کیا ہو گا، عملدرآمد بنچ ٹائم فریم کے مطابق کام کی تکمیل یقینی بنائے گا اور ڈیم کا ایک پیسہ بھی کسی اور مقصد کیلئے خرچ نہیں ہوگا، ڈیم فنڈز کی رقم پر ججز اور سپریم کورٹ بھی قابل احتساب ہے، روپے کی قدر کم ہو رہی ہے، عدالت نہیں چاہتی کہ ڈیم فنڈز کی رقم کی قدر کم ہو، اٹارنی جنرل عملدرآمد بنچ کے فوکل پرسن ہونگے۔ ڈیم کی تعمیر کیلئے ٹنل کی تعمیر ضروری ہے، این ایچ اے بابو سر کے علاقے میں ٹنل تعمیر کرے گا، اٹارنی جنرل نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ ٹنل پر کام شروع ہوا مگر مقامی عدالت نے اس لئے آرڈر جاری کر دیا، چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیم کی تعمیر میں جو بھی رکاوٹ آئے عدالت کو آگاہ کریں، ایک ویب سائٹ بنائی جائے جس پر ڈیم کی رقم خرچ کرنے کی تفصیلات دی جائیں، فنڈز لینے کا مقصد ڈیمز کیلئے مہم شروع کرنا تھا، لوگ اب پوچھ رہے ہیں کہ ڈیم کب بنے گا، ڈیم فنڈز کیلئے مزید کتنے پیسے درکار ہیں آگاہ کیا جائے، ٹنل کیلئے مقامی عدالت کی طرف سے دیئے گئے حکم امتناہی کی بھی تفصیلات دی جائیں، یہ بھی بتایا جائے کہ پیسہ بنانے کیلئے بانڈز جاری کرتے ہیں یا نہیں بنانی ہے، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ فنڈنگ کا بڑا حصہ وفاقی حکومت نے دینا ہے، ڈیم کی تعمیر کا کام رکنا نہیں چاہئے، اچھا مارک اپ ہے تو پیسہ بینک میں بھی جمع کروایا جا سکتا ہے، جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ حکومت سے ہدایات لے کر ٹائم فریم دیا جائے یہ بھی بتایا جائے کہ ہر سال پی ایس ڈی پی میں ڈیم کی تعمیر کیلئے کتنی رقم مختص ہوگی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ خدشہ ہے کہ ٹنل کی تعمیر ڈیم کے کام میں رکاوٹ نہ بنے، عدالت نے وفاقی حکومت سے 24دسمبر تک ڈیم کی تعمیر سے متعلق تفصیلات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 24دسمبر تک ملتوی کر دی۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے تھر کول منصوبہ قومی احتساب بیورو کو بھجواتے ہوئے سائنسدان ثمر مبارک مند کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔سپریم کورٹ نے تھر کول گیسی فکیشن منصوبہ از خود نوٹس نمٹا دیا جبکہ عدالت نے حکم دیا کہ ملازمین تنخواہوں کیلئے متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تھر کول گیسی فکیشن منصوبہ ازخود نوٹس کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی اور اس موقع پر سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آڈیٹر جنرل نے حتمی رپورٹ پیش کر دی ہے اور بتایا کہ اب تک 4 ارب 69 کروڑ روپے منصوبے پر خرچ ہوچکے ہیں لیکن بجلی پیدا نہیں ہوئی۔چیف جسٹس نے اس موقع پر استفسار کیا جو اربوں روپے منصوبے پر لگے اس کا حساب کون دے گا۔ چیف جسٹس نے کہا تھرکول منصوبے کی جگہ سے لوگ سامان بھی اٹھا کر لے گئے، جسٹس فیصل عرب نے سوال کیا 2017کے بعد رقم کس کے کہنے پر جاری ہوئی تھی۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تھر کول پلانٹ پر صرف تین چوکیدار تھے، منصوبے کیلئے فزیبلیٹی سٹڈی اور منصوبہ بندی ناقص تھی اور منصوبے کیلئے پلاننگ کمیشن نے کردار ادا نہیں کیا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد کیوں خیال آتا ہے کہ منصوبہ درست نہیں۔جسٹس فیصل عرب نے کہا منصوبہ 2 سال سے بند تھا لیکن کروڑوں روپے کی خریداری جاری تھی، خدشہ ہے کہ پہلے والے 4 ارب بھی منصوبے پر نہیں لگے ہوں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے '4ارب 69 کروڑ ضائع ہوگیا۔کمرہ عدالت میں موجود ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے اس موقع پر کہا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے جائزہ لے کر فنڈز جاری کیے، جب فنڈز میسر ہوئے تو پلانٹ نہیں چل سکا، صرف اتنا کہا گیا کہ بجلی پیدا کر کے دکھاؤ۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا جو ذمہ داران ہیں ان کے خلاف کارروائی ہوگی، سمجھ نہیں آتی پلانٹس کا کیا کریں، وفاقی اور سندھ حکومت جائزہ لیں کیا منصوبہ چل سکتا ہے اور 6 ہفتے میں سائنٹفک اسٹڈی کر کے فیصلہ کیا جائے۔اعلیٰ عدالت نے قرار دیا کہ قومی خزانے سے منصوبے کو بھاری نقصان پہنچایا گیا، نیب تھر کول منصوبے کی تحقیقات کرے اور آڈٹ رپورٹ کی روشنی میں ثمر مبارک مند کے خلاف کارروائی کرے۔سپریم کورٹ نے غیر قانونی پٹرول پمپس سے متعلق کیس میں غیر قانونی پٹرول پمپس کی زمین نیلام کرنے کا حکم دیدیا۔چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے ایل ڈی اے کی زمین پر غیر قانوی پٹرول پمپس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔وکیل ایل ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ 21 پمپ نیلا م ہوگئے،18 پمپ بک گئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پیر کلیم صاحب آپ ہمارے قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہیں،ایل ڈے اے 10 روز میں پٹرول پمپس کا قبضہ لے، قبضہ واپس لے کر زمین کامیاب بولی دہندہ کو دیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ نے غیر قانونی پٹرول پمپس کی زمین نیلام کرنے کا حکم دے دیا۔

مزید :

صفحہ اول -