اسی تنخواہ پر کام کریں گے، عوام جو ہوئے!
آپ نے بارہا سنا ہو گا، اب بھی اسے دہرانے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ موقع بھی کپتان صاحب نے ہی مہیا کیا ہے۔ بات پرانی کہ ایک اہل ہنر مند اپنے آجر کے پاس گیا اور گذارش کی کہ اس کی تنخواہ بڑھا دی جائے۔ اس پر ان کے درمیان مکالمہ ہوا، ملازم نے پُرزور انداز میں کہا میری تنخواہ بڑھا دیں، آجر نے آنکھ ملا کر پوچھا کیا، ملازم بولا، میری تنخواہ بڑھا دیں، ورنہ، آجر نے تیز لہجے میں کہا، ورنہ کیا، ملازم گھبرا کر بولا! ورنہ!”پھر مَیں اسی تنخواہ پر کام کروں گا“ یہاں وزیراعظم پاکستان نے ورنہ تو نہیں پوچھا، لیکن بات وہی کی ہے وہ کہتے ہیں ’’مَیں پھر کہتا ہوں، گھبرانا نہیں، عالمی ادارے اب ہمارے ملک کی معیشت بہتر ہونے کا اعتراف کر رہے ہیں“ وزیراعظم نے بڑی تسلی دی ہے۔ چلیں ایک عام آدمی کے لئے یہ معیشت والا معاملہ مشکل ہی سہی، ہم تو ماننے کو تیار ہیں کہ گھبرایا نہ جائے،لیکن اس پاپی پیٹ کا کیا کریں، جو کچھ سننے کو تیار نہیں اُسے تو سالن اور روٹی چاہئے جو مل نہیں رہی، اسے انصاف چاہئے اور جلد کی خواہش ہے،
لیکن یہ بھی تو نہیں ہو رہا، فاضل چیف جسٹس کی نصیحت اور ہدایت کے باوجود نچلی عام عدالتوں پر کوئی اثر نہیں ہوا، یہاں حالت یہ ہے کہ خود سرکاری ادارہ شماریات تسلیم کرتا ہے کہ مہنگائی ہزاروں کے حساب سے بڑھی اور اگر اس ادارے کے اعداد و شمار ہی کو مان لیا جائے تو مجموعی طور پر قریباً اٹھارہ فیصد اضافہ ہو چکا اور ابھی مزید بڑھنے کا اشارہ دیا گیا ہے۔ وزیراعظم کا فرمانا بجا اور سر آنکھوں پر جب آج بھی ایک سو روپے فی کلو پیاز اور ٹماٹر 200روپے فی کلو ملیں گے تو سالن کیسے پکے گا، حضرت بازار میں آلوؤں کی نئی فصل آ چکی اس کے باوجود آلو70سے80روپے فی کلو ہی فروخت ہو رہے ہیں اور یہی حال دوسری سبزیوں کا ہے، رہ گئی دال تو پنجاب میں کہا کرتے تھے ”دال جیہڑی نِبھے نال“(دال جو ہمیشہ ساتھ نبھاتی ہے)لیکن اب تو یہ بھی کہیں دور کھڑی مسکرا رہی ہے کہ سب سے سستی والی چنے کی دال بھی160روپے فی کلو تک بک رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کو شاید ان کی میڈیا (ترجمان) ٹیمیں بازار اور عوامی رائے کی اطلاع دینے کی پابند نہیں ہیں وہ تو تشہیر اور الزام لگانے کا کام کرتی ہیں، ورنہ ان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اب تو کٹر یوتھیئے بھی مہنگائی کے حوالے سے نہ صرف جواب نہیں دے پاتے،بلکہ گلہ بھی کر رہے ہیں۔اس کی ایک مثال وہ فیس بُک پوسٹ ہے جوگزشتہ دِنوں ہمارے دوست وسیم ڈار نے کی۔ انہوں نے فریاد کی تھی، کپتان صاحب! اللہ کے واسطے کچھ کریں، مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے، عرض کریں کہ یہ ان دِنوں کہا گیا جب ابھی ٹماٹر 80سے100روپے فی کلو تھے اور400روپے فی کلو نہیں ہوئے تھے۔ یہ حال تحریک انصاف کے کٹر حامی حضرات کا ہے، جو کسی کی بات نہیں سنتے اور نہ ان پر کوئی دلیل اثر کرتی ہے، یہ آپ (کپتان) کے دیوانے ہیں، تاہم مجبور ہو کر فریاد پر اُتر آئے ہیں، محترم اس سے اگلا مرحلہ جو ہو سکتا ہے اس کا تصور آپ خود کر لیں۔
ہمارے شہر کے دانشور حضرات میں ”بھولا“ کا کردار بہت مشہور ہے۔ اگرچہ یہ حقیقی کردار ہے جسے محترم عبدالقادر حسن نے متعارف کرایا اور اب یہ کئی کالموں میں نظر آ جاتا ہے، جبکہ اصل کردار خاموش اور عبدالقادر حسن بھی ذکرکرنا چھوڑ چکے، ہمارے اردگرد بھی ایسے کردار موجود ہیں، ہم بوجوہ ذکر نہیں کرتے، ورنہ ہمارے ایک محلے دار نذیر عرف جیرا پہلوان”نو پلوان جی!“(لو پہلوان جی) بھی موجود تھے جو ایسے ایسے اقوال سناتے کہ محفل دنگ رہ جاتی تھی، پہلوان خود سائیکل مرمت کا کام کرتے اور ”چٹے اَن پڑھ“ ہونے کے باوجود انگریزی فلموں کے شوقین تھے، جب کبھی بارہ آنے والی ٹکٹ لے کر کوئی نئی فلم دیکھ کر آتے تو پھر ہم دوستوں کو اس کی پوری کہانی بھی سناتے اور ڈائیلاگ بھی دہراتے تھے، ایک ہی مثال کافی ہے، ایک فلم دیکھ کر آئے اس کی کہانی شروع کی۔ ایک سین کو یوں دہرایا”نو، پلوانٖ جی، ولن تے اودھے گُنڈے، ہیروئن نوں چک کے لے جاندے نیں، اودر ہیرو دا یار اونوں دسدا اے، اوئے تیری مشوق نو چک کے لے گئے ہیں“ لیں فیر پلوان جی، ہیرو چھال مار کے کوڑھے نے بہنداتے دگڑ دگڑ پچھا کرن لگ پیدا‘،تے کہندا اے، او، بدمعاش، ٹھہر جاؤ، مَیں آ گیا واں“ تو حضور آج بھی کچھ ایسا ہی سین ہے کہ ولن اور اس کے ساتھی ہیروئن کو لے گئے اور ہیرو منہ دیکھتا رہ گیا ہے، سارے ”بدمعاش“ لوٹ مار میں مصروف ہیں اور آپ کپتان جی! دو خاندانوں سے رقم نکلوانے کی فکر میں ہیں، اور سارا زور اسی پر صرف کر رہے ہیں، ابھی تک وصول تو کچھ نہ ہوا۔
”گلاس توڑا بارہ آنے والی بات ہے“ ہم مانتے ہیں کہ یہ آپ کا مشن سہی، اور آپ اب یہ فرما رہے ہیں کہ لوٹ مار کرنے والے باہر بھاگ گئے ہیں،حالانکہ باہر جانے والے آپ کی حکومت کی اجازت سے گئے، آپ ہی کی مقرر کردہ ڈاکٹروں کی ٹیم نے سابق وزیراعظم کو خطرناک بیماریوں میں مبتلا قرار دیا،اور اب آپ پھر سے اپنے بیانیہ کو دہرا رہے ہیں، اسی طرح جب آپ کی ٹیم (معذرت) نیب والے سپریم کورٹ سے محمد شہباز شریف کی ضمانت منسوخ نہ کرا سکے تو آپ نے ”پہلوان“ شہزاد اکبر کو میدان میں اُتار دیا، جو18سوالات لے کر آئے،ان میں بنیادی الزام منی لانڈرنگ اور ناجائز اثاثوں کا ہے، عوام پوچھتے ہیں کہ یہ ہے تو پھر ابھی تک آپ الزام ثابت کیوں نہ کر سکے، لوگ ذہنی طور پر یقینا متاثر ہیں، لیکن عملی صورت میں تو بتائیں۔ یہاں تو الزام اربوں، کھربوں کے ہیں اور محمد نواز شریف کو سزا ”اقامہ“ رکھنے پر ہوئی۔یہی صورتِ حال آصف علی زرداری کے حوالے سے ہے۔ نیب ان کو اور دوسرے سیاسی رہنماؤں کو اپنے اختیارات کے تحت جیل میں رکھے ہوئے ہے، لیکن تاحال ریفرنس دائر کر کے سماعت شروع نہیں کرا سکا اور وہ بیمار ہو کر بے گناہی کی دہائی دے رہے ہیں۔
یہ سب بھی محدود ہو کر رہ گیا ہے، وسیع کرپشن کا کوئی سد ِباب نہیں اور پوچھنے والا نہیں، سرکاری اداروں کے ملازم کام نہیں کرتے۔ شہر تجاوزات، گرد و غبار، گندگی، اور وبائی امراض بانٹ رہے ہیں، ان کا سد ِباب نہیں۔ یہ صرف آپ کے چاہنے والوں کے صوبوں میں ہی نہیں، سندھ میں بھی ہے اور عوام جسے آپ عام آدمی کہتے ہیں کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ یہ درست کہ آپ کی ٹیم دن رات مخالفین پر الزام لگانے اور طنز و تشنیع پر لگی ہوئی ہے اور یوں جواب بھی سن رہے ہیں،لیکن مسائل کا حل تو بتائیں۔عام آدمی بہت پریشان ہے اس کی یہ پریشانی اور دُکھ تو ختم کرنے کے اقدامات کریں، پھر یہ نہیں گھبرائیں گے۔اگرچہ اب یہ گھبرائیں گے بھی، تو کیا کریں گے ”اسی تنخواہ پر ہی تو کام کریں گے“۔