طلبہ تنظیموں کی بحالی؟

طلبہ تنظیموں کی بحالی؟
طلبہ تنظیموں کی بحالی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملک کے بڑے شہروں میں 29 نومبر کو طلبہ کے مارچ نے ایک مرتبہ پھر اس بحث کو زندہ کر دیا کہ کیا طلبہ تنظیموں پر عائد پابندی ختم ہونی چاہیے یا نہیں؟ظاہر ہے اس حوالے سے دو مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ایک طبقے کا کہنا ہے کہ طلبہ سیاست ہی واحد ایسا راستہ ہے،جس کے ذر یعے متوسط اور زیریں متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی ملکی سیاست میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔اس سوچ کے مطابق طلبہ کی سیاست کے ذریعے، سرمائے اورامیر خاندانی پس منظرکے بغیر بھی سیاست میں نما یاں ہونا ممکن ہوجاتا ہے۔طلبہ سیاست کے باعث نوجوان مختلف نظریات سے متعارف ہوتے ہیں۔اس سے ان کے سیاسی اور سماجی شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔معاشی اور سیاسی مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کا موقع ملتا ہے۔

اس سب سے مکالمے کو فروغ ملتا ہے،مگر دوسری طرف یہ سوچ بھی پا ئی جا تی ہے کہ طلبہ سیاست سے وقت، توانائی اور صلاحیتیں ضائع ہو جا تی ہیں۔طلبہ تعلیم پر توجہ دینے کی بجائے اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اور اس سے تشدد اور عدم برداشت کو بھی فروغ ملتا ہے۔اب دونوں میں سے کون سی سوچ حقیقت کے زیادہ قریب ہے؟اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے اس حقیقت کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ اصولی اور بنیا دی طور پر سیاست، جھوٹ بولنے، دھوکہ دینے، کرپشن کرنے، طا قت کا مظاہرہ کرنے اور فریب پر مبنی ہتھکنڈے استعمال کر کے اقتدار حاصل کرنے کا نام نہیں ہے۔اس سب کے لئے جو اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے، اس کو ”پا ور پالیٹکس“ کہا جا تا ہے۔کرپٹ اشرا فیہ اسی”پا ور پالیٹکس“ کو استعمال کرتے ہوئے طا قت حاصل کرتی ہے،پھر نظام سے بھرپور فائدے اٹھاتی ہے۔”سیاست“ کو اگر صحیح معنوں میں لیا جا ئے تو یہ ایک ایسا راستہ ہے،جس کے ذر یعے پسے ہوئے، محروم اور متوسط طبقات سیاسی،،معاشی اور سماجی نظام میں بہتری لا کر اپنے طبقے کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔


اس نظام سے فائدہ اٹھانے والی کرپٹ اشرا فیہ اس جھوٹے تاثر کو فرو غ دیتی ہے کہ ”سیاست“ ایک گندی چیز ہے،اس لئے اچھے اور ایماندار لوگوں کو سیاست نہیں کر نی چاہے۔اس تاثر سے کرپٹ حکمران طبقات کے مفا دات مزید محفوظ ہو جاتے ہیں، کیونکہ ان کو چیلنج کرنے والا ہی کوئی نہیں ہو تا اور اس سے سیاست محض جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور اثر و رسوخ رکھنے والے اہم خاندانوں کے گھروں کی لونڈی بن کر رہ جا تی ہے۔ ویسے تو دنیا کے بہت سے ملکوں میں ایسی مثا لیں مو جود ہیں کہ طلبہ تنظیموں نے سیاسی نظاموں کو کیسے چیلنج کیا۔ فرانس سے امریکہ اور الجزائر سے انڈونیشیا تک انقلابی تحر یکوں کا آغاز طلبہ نے ہی کیا۔ پاکستان میں 1968-69ء کے سالوں میں جب نظام کی تبدیلی کے لئے بھر پور تحریک چلی اور اس تحریک میں دیگر طبقات کے ساتھ ساتھ طلبہ نے بھی بھرپور کردار ادا کیا تو اس تحریک نے پورے نظام کی چولیں ہی ہلا کر رکھ دیں،یہ وہ دور تھا کہ جب دائیں بازو اور بائیں باز و کی سیاسی جما عتیں آج کے دور کے مقابلے میں نظریا تی ہو تی تھیں۔ سیاسی نظریات کی یہی چھاپ ہمیں طلبہ تنظیموں میں بھی نظر آتی تھی۔ جیسے این ایس ایف،ڈی ایس ایف، این ایس او،اور پھر بعد میں،پی ایس ایف،طلبہ سیاست میں با ئیں بازو، جبکہ آئی جے ٹی،یم ایس ایف اور اے ٹی آئی دائیں بازو کے نظریات کی طلبہ تنظیمیں تھیں۔اس تحریک میں طلبہ کے فعال ہونے سے اس وقت کے حکمر ان طبقات کے مفا دات کو زبر دست ضرب پڑی جو 1950ء اور1960ء کی دہائی میں اس نظام سے مستفید ہوتے آئے تھے۔ اس تحریک نے حکمران طبقات کے کئی دھڑوں کو بھی طلبہ، مزدورں، کسانوں اور متوسط طبقے کے مطالبات کو اپنے سیاسی منشور اور پرو گرام کا حصہ بنانے پر مجبور کردیا۔ ذولفقار علی بھٹو کی مقبولیت اور پیپلز پا رٹی کا قیام اس بات کا ایک ثبوت ہے۔


اس سب سے ظاہر ہو تا ہے کہ طلبہ کی سیاست سے حکمران طبقات کے ایسے دھڑے ہی خوفزدہ ہو تے ہیں،جو اس نظام سے بھرپور فا ئدہ اٹھا رہے ہوں۔ طلبہ تنظیموں کے فعال کردار سے ان کو اپنے مفا دات پرضرب پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ طلبہ تنظیموں کے ذریعے سیاسی جماعتوں میں آنے والے نوجوان اپنے ساتھ نئے خیالات، آدرش اور توانائی لے کر آتے ہیں۔ایسے نوجوان سیاست دان، سیاسی جما عتوں میں شامل ”اسٹیٹس کو“ کے نما ئندوں کو چیلنج کرتے ہیں اور سیاسی جما عتوں میں نظریات کو بھی زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔پا کستان کے کئی سیاستدان ایسے ہیں جو طلبہ تنظیموں کے ذر یعے قومی منظر نامے پر ابھرے اور ان کی اکثر یت نے ملک میں جمہو ریت کے لئے جدو جہد بھی کی۔پا کستان میں غیر جمہوری ادوار میں نظریاتی سیاست کو کمزور کرنے کی شعوری کوشش کی جا تی رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ 1984ء میں طلبہ تنظیموں پر پا بندی عا ئد کر دی گئی۔ 1989ء میں طلبہ تنظیموں کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا، مگر بعد میں ان پر پھر پابندی لگا دی گئی۔پا کستان میں طلبہ تنظیموں پر پا بندی کا ایک بڑا جواز یہ بتا یا گیا کہ اس سے تشدد کی سیاست کو فروغ مل رہا تھا۔طلبہ تنظیموں پر تشدد کی سیاست کا الزام مکمل طور پر غلط بھی نہیں ہے، مگر یہ دیکھنا ہو گا کہ پا کستان میں طلبہ کی تنظیموں میں تشدد کا عنصر کب زیا دہ ابھرا؟ اگر ہم 1960 ء کی دہائی کے آخر کی بات کر یں تو اس زمانے میں طلبہ سیاست میں تشدد کا عنصر شدت کے ساتھ مو جود نہیں تھا۔ دائیں اور با ئیں با زو کی طلبہ تنظیموں کے درمیان نظر یاتی اور فکری مکالمہ ہو تا، نظر یاتی بحثیں چلتیں اور اپنے اپنے نظر یات کو سچا ثابت کرنے کے لئے دلیل کا سہارا بھی لیا جا تا۔یہ صحیح ہے کہ اس وقت بھی طلبہ سیاست مکمل طور پر تشدد سے پاک نہیں تھی، مگر تب طلبہ سیاست میں تشدد غالب نہیں تھا۔


طلبہ سیاست میں تشدد کا عنصر اس وقت غالب آیا، جب 1977ء کے بعد سیاسی عمل کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔یونیورسٹیوں اور کالجوں میں سیاسی مخالفین کی آواز دبانے کے لئے مخصوص تنظیموں کی سر پر ستی کی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب طلبہ سیاست کے نام پر غنڈہ عنا صر بھی سیاست میں شامل ہو گئے۔ طلبہ سیاست میں اسلحہ، کلاشن کوف کلچر، قبضہ کلچر، دھونس اور تشدد نے بھر پور فروغ پا یا۔دلیل کی جگہ بندوق نے لے لی۔اب ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے سرے سے ہی طلبہ تنظیموں پر پا بندی عا ئد کر دی گئی، جس کو جمہوری ادوار میں بھی ختم نہیں کیا گیا۔اگر جمہوری حکومتیں اس با رے میں مخلص ہوتیں تو بہت سے اقدامات کے ذر یعے ان تما م مسائل کو حل کیا جاسکتا تھا۔ جیسے کسی بھی تنظیم کو اسلحہ رکھنے پر بہت سخت سزا کا تعین ہو نا چا ہیے۔ اس حوالے سے ما ضی کے بر خلاف کسی بھی تنظیم سے رعایت نہیں کرنی چاہتے،طلبہ سیاست کے نام پر غندہ گردعنا صر کے خلاف بھی قانونی کا رروائی ہو۔

تما م تنظیموں کو تعلیمی اداروں میں سیاست کرنے کے یکساں مواقع فر اہم کئے جائیں۔ طلبہ تنظیموں کو پا بند کیا جا ئے کہ وہ امتحانات اور نصابی سرگرمیوں پر بالکل اثر انداز نہیں ہوں گے، ورنہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ طلبہ تنظیموں کو باقاعدہ انتخابات کے لئے پابند بنایا جائے، تاکہ بار بار کی انتخابی مشق سے اچھے سیاسی نوجوان ہی سامنے آ سکیں۔ اس طرح کے اور بہت سے اقدامات کرکے طلبہ تنظیموں کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے پا کستان کے سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کو زبر دست تقویت ملے گی، موروثی سیاست کمزور ہو گی، سیاست میں برادریوں، ذات پات اور فر قہ واریت کی بنیاد پر سیاست کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔طلبہ احتجاج کے بعد پی ٹی آئی سمیت کئی سیاسی جما عتوں نے بھی طلبہ تنظیموں کو بحال کرنے کی حمایت کی ہے،اس لئے اس بارے میں مثبت امید رکھی جا سکتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -