کپتان کی وارننگ اور منہ زور  افسران

کپتان کی وارننگ اور منہ زور  افسران
کپتان کی وارننگ اور منہ زور  افسران

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


فرمایا ہے پیارے کپتان نے کہ اب اگر کسی سرکاری افسر پر رشوت لینے یا اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کے الزامات ثابت ہوئے تو اُسے صرف ٹرانسفر نہیں کیا جائے گا،بلکہ ملازمت سے نکال دیں گے،اس پر مجھے بھارتی  فلم ”نائیک“ یاد  آ گئی، جس میں ایک دن کے لئے بنائے جانے والے وزیراعلیٰ صاحب ٹائپ رائٹر اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور جہاں کہیں نااہلی اور رشوت کی شکایت ملتی ہے، فوراً معطلی یا ملازمت سے برخواستگی کا پروانہ تھما دیتے ہیں۔پیارے کپتان کی باتیں آدمی کو ایک مرتبہ تو نہال کر دیتی ہیں، اُن باتوں کا حشر کیا ہوتا ہے یہ بعد کی کہانی ہے، ایک بار چھکا لگا کر کپتان جی میچ جیتنے کی کوشش تو پوری کرتے ہیں۔ پیارے کپتان نے یہ بھی فرمایا  ہے کہ پنجاب میں نچلی سطح پر کرپشن بڑھ گئی ہے۔ بس یہاں وہ تھوڑی سی کمزور شاٹ کھیل گئے ہیں۔نچلی سطح پر کرپشن کے اعتراف سے لگتا ہے کہ وہ دفتروں میں بیٹھے ہوئے کلرکوں،نچلے گریڈ کے ملازمین اور پٹواریوں کی بات کر رہے ہیں، حالانکہ پنجاب میں کرپشن افسران کرتے ہیں اور نچلا عملہ ان کے لئے مالِ غنیمت سمیٹتا ہے۔ اگر کسی دفتر میں کرپشن کا بازار گرم ہے تو اُس کا ذمہ دار اُس کا بڑا افسر ہے۔ وہ نہ چاہے تو کسی کی جرأت نہیں ہو سکتی کہ عین اُس کی ناک کے نیچے بے خوف و خطر لوگوں سے رشوت طلب کرے اور بے جا اعتراضات لگا کر اُس کا جینا محال کر دے۔


سرکاری افسروں نے وزیراعظم کی اس وارننگ پر قہقہے ضرور لگائے ہوں گے، جو حکومت چل ہی افسران کے سہارے رہی ہے اور اُس نے اپنے ارکانِ اسمبلی کو بے اختیار کر دیا ہے۔ وہ کیسے افسران کو راہِ راست پر لا سکتی ہے۔کیا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے کہ سی ایس پی افسران فیلڈ پوسٹنگ میں صرف دیہاڑی لگانے آتے ہیں، انہیں معلوم ہوتا ہے کہ چند ماہ کی بہار ہے جتنا لوٹنا ہے لوٹ لو، کیونکہ پھر اُس کے بعد کسی اور ضلع،کسی اور ڈویژن میں جا کے مال سمیٹنا ہے۔ملتان کے ایک سابق کمشنر شان الحق اور ملتان میں تعینات ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ کے خلاف اینٹی کرپشن ملتان نے باقاعدہ چارج شیٹ جاری کر دی ہے کہ انہوں نے کروڑوں روپے کی لوٹ مار کی، حتیٰ کہ کورونا مریضوں کے لئے آئسولیشن سنٹرز بنانے میں بھی سرکاری فنڈز کو نہیں بخشا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں افسران اعلیٰ سرکاری مناصب پر اب بھی فائز ہیں اور کسی نے انہیں معطل تک کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

شاید ایسی ہی صورتِ حال پر وزیراعظم عمران خان یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ کرپشن کرنے والوں کو صرف تبدیل ہی نہیں، بلکہ نوکری سے برخواست کریں گے۔ بات پنجاب کی ہوتی ہے اور ایکشن لینے کا اعلان وزیراعظم کرتے ہیں، وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ویسے تو وہ بہت تعریف کرتے ہیں۔گزشتہ دِنوں انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ جب پانچ سال پورے ہوں گے تو عثمان بزدار پنجاب کے سب سے کامیاب وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوا چکے ہوں گے ارے بابا یہ کیسی کامیابی ہے کہ ایک ہی سانس میں وزیراعظم پنجاب میں کرپشن بڑھ جانے کی بات بھی کر رہے ہیں۔کوئی بتا سکتا ہے کہ پنجاب میں اب تک اس حکومت کے دور میں کتنے سی ایس پی افسران کو کرپشن پر معطل کیا یا نوکری  سے نکالا گیا ہے۔ شاید ایک بھی نہیں، بلکہ اس حکومت کے دور میں اُلٹا یہ ہو چکا ہے کہ افسران نے عملاً کام بند کیا اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔


آج وزیراعظم انہیں افسروں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ سدھر جائیں وگرنہ نوکری سے جائیں گے، جنہیں اپنے ہی ہاتھوں سے یہ سلیمانی ٹوپی پنہا چکے ہیں کہ وہ جو مرضی کریں نیب اُن کے خلاف کارروائی نہیں کرے گا۔یہ پخ بھی اسی حکومت کے دور میں لگائی گئی کہ کسی افسر کی کرپشن سامنے بھی آ جائے تو نیب اُس وقت تک اُس کے خلاف کیس نہیں بنا سکتا جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اُس میں افسر کی نیت بھی شامل تھی یا نہیں۔ نیتوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ایسے کمزور اقدامات اٹھا کر حکومت نے خود افسروں کے لئے آزادانہ کرپشن کی راہ ہموار کی۔ ایک طرف آپ افسروں کے خلاف احتسابی عمل کو روکتے ہیں اور دوسری طرف انہیں یہ وارننگ دیتے ہیں کہ کرپشن کرنے پر نوکری سے جائیں گے۔سوال یہ ہے کہ جب احتساب کے کسی بڑے ادارے کو کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کا اختیار ہی نہیں تو اُن پر کرپشن ثابت کیسے ہوگی۔وزیراعظم تو افسروں کے تبادلے کو کوئی سزا ہی نہیں سمجھتے،لیکن پنجاب میں کیا ہو رہا ہے۔ ڈپٹی کمشنرز ڈی پی اوز، کمشنر، آر پی اوز ایسے تبدیل ہوتے ہیں جیسے کوئی روزانہ کپڑے تبدیل کرتا ہے، یہ نہیں ہوتا کہ تبدیل ہونے والوں کو کسی احتساب یا کارروائی کا سامنا کرنا پڑے، بلکہ صرف ضلع یا ڈویژن تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اگر  وزیراعظم صرف پچھلے دو سال میں تبدیل اور تقرری کے پنجاب میں جاری کئے گئے حکم نامے ہی دیکھ لیں تو انہیں اندازہ ہو جائے کہ کیسی لوٹ مچی ہوئی ہے۔ جب کسی افسر کو پتہ ہے کہ اُسے چند ماہ کے لئے بھیجا گیا ہے تو وہ کرپشن کی گنگا میں ہاتھ دھونا پسند کرے گا، اُسے روکنے کی کوشش کو حماقت سمجھے گا۔


بیورو کریسی کی ایک اپنی ہی دُنیا ہے۔ وہ خود کو اس ملک کا اصل حکمران سمجھتی ہے اس دور میں افسروں کی ایک نئی کھیپ بھی میدان میں آئی ہے۔ یہ وہ افسران ہیں جو یہ سمجھ چکے ہیں کہ اکیلے کھانے میں خطرہ ہی خطرہ ہے اور کسی وقت بھی کرسی چھن سکتی ہے، انہوں نے اپنے علاقے کے ارکانِ اسمبلی سے گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔اگر آپ غورو فرمائیں تو یہ دلچسپ حقیقت سامنے آئے گی کہ کسی ضلع میں ڈپٹی کمشنر سالہا سال تبدیل نہیں ہوتے اور کسی میں پت جھڑ کے موسم میں پتوں کی طرح گرتے ہیں۔ آج ملتان اس کی بہترین مثال ہے، کئی کمشنرز بدل گئے،سی پی اوز تبدیل ہوئے، ڈپٹی کمشنر وہیں کے وہیں موجود ہیں۔ جب افسروں کی تبدیلی کا کوئی ضابطہ  ئ کار نہیں ہو گا، کارکردگی کی بجائے،پیا من بھانے کی صفت فوقیت اختیار کر جائے گی تو گڈ گورننس آئے گی نہ کرپشن ختم ہو گی۔ بس آپ کسی بات کو دِل پر نہ لیا کریں، پیارے کپتان کی باتوں پر سر دھنتے رہیں، کہ اس سے بڑی تفریح فی زمانہ وطن ِ عزیز میں کہیں اور دستیاب نہیں۔

مزید :

رائے -کالم -