"کہنا نہیں سہنا سیکھیں"
با وفا آدمی جناب سید تنویر عباس نقوی کی"نورچشم" کے نکاح کی تقریب میں باوقار اسلامی سکالر جناب مفتی احمد علی نے "کمال جملہ" ارشاد فرمایا... جامعہ اشرفیہ لاہور کے شیخ الحدیث مفتی احمد علی صاحب ایک خوب صورت اور خوب سیرت عالم دین ہیں... مفتی صاحب دارالافتا کے سربراہ اور بحریہ ٹاؤن لاہور کی گرینڈ مسجد کے بھی خطیب بھی ہیں... مفتی صاحب نے مسنون خطبے کے بعد صرف "چار الفاظ" پر مشتمل مختصر ترین" اردو خطبہ" دیا... کہہ لیجیے" کوزے میں دریا" بند کردیا.....انہوں نے نئے جوڑے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا بیٹا آپ لوگ نئے سفر کا آغاز کر رہے ہیں.....اگر زندگی کو خوشگوار بنانا چاہتے ہیں تو "کہنا نہیں سہنا سیکھیں".....میں نے آج تک کسی تقریب نکاح میں ایسا "نصیحت آموز خطبہ" نہیں سنا......مغرب کی نقالی میں خزاں کے پتوں کی طرح بکھرتے "خاندانی نظام "کو بچانے کے لیے اس سے بہتر "پبلک میسج"نہیں ہو سکتا......پولرائزیشن کے اس ماحول میں مین حیث القوم ہمیں اس فکر کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے..۔ ویسے کسی بھی گفتگو میں چند ایک ہی جملے ہوتے ہیں جو دلوں پر نقش ہوتے ہیں، باقی تو سب" طوطا کہانیاں" ہوتی ہیں...
کبھی علمائے کرام کے خطبوں اور تقریروں سے ایسے" نکتے"وا" ہوتے لیکن پھر رفتہ رفتہ "کمرشل ازم" بڑھتا گیا اور تاثیر ختم ہوتی گئی......جیسے صحافی اور ادیب کے لکھے اور بولے الفاظ" اثر" کھو بیٹھے ہیں.....اخبار کے صفحات ہوں یا ٹی وی سکرین....اب وہاں گفتگو نہیں "جگالی"ہوتی ہے....اور ڈنکے کی چوٹ ہوتی ہے.... گلیمر اور کمرشل ازم کا برا ہو کہ اس نے باتوں،رشتوں اور چیزوں سے" روح" کھینچ لی ہے....اب تو بڑے شہروں کے پھل فروش بھی رات کو روشنیوں کی" چکاچوند" میں "دھوکہ"بیچتے ہیں...
جناب تنویر عباس نقوی ہوتے تو مفتی صاحب کے اس "نکتے" پر عش عش کر اٹھتے....ان کی "دست بوسی" کرتے کہ وہ خود نکتہ دان اور نکتہ شناس تھے.....میں نے نقوی صاحب سے ایک بار پوچھا آج کل کالم کیوں نہیں لکھ رہے؟بولے الفاظ بھوک میں اترتے ہیں.....ان دنوں میرے پاس اچھی نوکری ہے.....گاڑی اور پیسے ہیں...کالم لکھا ہی نہیں جاتا.......وہ ایک قومی اخبار کے ایڈیٹر بنے تو رکشے پر دفتر آتے..... میں نے کہا اب آپ مدیر ہیں... گاڑی لے لیں....کہنے لگے اس سے کیا فرق پڑتا ہے.... میں پیدل بھی ایڈیٹر ہی ہوں......میں نے ایک شاعر ادیب کی میگزین میں ملازمت کے لیے سفارش کی اور کہا انٹرویو کرلیں...بولے شاعروں ادیبوں کے انٹرویو نہیں کرتے......کسی کو "فیور" پر میں نے کہا کہ چھکا ہی لگا دیا....کہنے لگے اختیار استعمال کرنے کے لیے ہوتے ہیں ....آج میں نہیں کروں گا تو کل کوئی کرے گا..... ایسے جملے نقوی صاحب ہی کہہ سکتے تھے....یا پھر بابا نجمی سے ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں....بابا جی نے کسی ایک مجلس میں کہا کہ اللہ کی قسم اللہ سے کبھی لاکھ نہیں مانگے جب بھی مانگا ہے کوئی اچھا شعر مانگا ہے.....ساتھ ہی بولے اگر اللہ نے میری عمر 60سال لکھی ہے تو کیا دال کھانے سے ایک سال کم یا گوشت کھانے سے ایک برس بڑھ سکتی ہے.....اگر نہیں تو پھر دنیا کے بکھیڑوں میں پڑنے کا کیا فائدہ؟؟؟؟مفتی صاحب ہوں...نقوی صاحب یا بابا نجمی،یہ فقیرانہ باتیں ہیں....یہ نہیں کہ ایسے لوگ "تارک الدنیا" ہوتے ہیں....ہرگز نہیں وہ صرف دل کے غنی ہوتے ہیں.....ہوس ان کے دل و دماغ پر سوار نہیں ہوتی.....
تہنیت کے نکاح کی شب نقوی صاحب شدت سے یاد آئے...یہ تقریب عین اس جگہ پر ہو رہی تھی جہاں سے کئی سال پہلے گذرتے میں نے تہنیت کی شادی کی بات کی تھی ....میں اس لمحے گردن جھکائے آنسو پی گیا......مجھے وہ دن یاد آگئے کہ جب ہم اکٹھے گورومانگٹ روڈ پر ایک اخبار کے دفتر سے پریس کلب آتے.....بے شمار خوبیوں والے نقوی صاحب میں صرف ایک خامی تھی کہ وہ "غیر محتاط"بہت تھے....میں پورے راستے میں اس خامی کیخلاف"تقریر"کرتا....وہ سنتے رہتے اور آخر میں مجھ سے متفق ہونے کا اعلان کرکے اپنی راہ لیتے ....تنگ آمد بجنگ آمد ایک دن میں نے "ایموشنل بلیک میلنگ" کا حربہ آزمایا.....چلتے چلتے جب ہم ڈیوس روڈ پر ایمبیسڈر ہوٹل کے سامنے پہنچے تو میں نے جذباتی انداز میں کہا نقوی صاحب تہنیت بیٹی کتنی بڑی ہوگئی ہے....چند سال بعد اس کی شادی بھی کرنی ہے اور آپ ہیں سنجیدہ ہی نہیں ہو رہے....وہ پگھل سے گئے...پہلی اولاد بڑی پیاری ہوتی ہے....وہ بھی تہنیت سے بڑی محبت کرتے....وہ اپنی بہنوں کے بھی قدردان تھے....وہ اکلوتے بیٹے اور بھائی تھے...گھر والوں کی آنکھ کا تارا تھے...لاڈلے تھے اور شاید اسی لیے لا ابالی بھی.....
لٹن روڈ کے قبرستان میں مجھے ان کے والد سید نذیر بخاری کا جملہ آج تک نہیں بھولتا کہ تنویر عباس یہ تو میرے جانے کا وقت تھا اور تو چلا گیا.....پھر وہ خود بھی چند سال بعد چلے گئے..بھلے آدمی تھے....مجھ سے مانوس سے ہو گئے....میں گاہے انہیں ملنے چلا جاتا....نوشین کے برادرم راجہ ریاض سے رشتے میں انہوں نے میری گواہی اور ڈاکٹر احمد علی سراج کی دلیل مان لی......
بھائیوں جیسا دوست کے الفاظ "تکیہ کلام"کے سوا کچھ نہیں..."برادران یوسف"بھی ہوا کرتے ہیں...ہاں وفا اور ایثار کے باب میں اصحابِ رسولؐ مستند حوالہ ہیں.....سیرت مبارکہ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ دوست کے احسانات کا بدلہ دیجیے ....بدلہ نہیں دے سکتے تو دوست کے احسانات کا اعتراف کرتے ہوئے "دست دعا" اٹھا ہی دیجیے.....یہ سنت بھی ہے..... رسول کریم ﷺہ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا"کسی کا بھی ہمارے اوپر کوئی ایسا احسان نہیں جس کا ہم نے بدلہ چکا نہ دیا ہو، سوائے ابوبکر کے، بے شک اُن کے ہمارے اوپر احسان ہیں جن کا بدلہ اﷲ قیامت کے دن چُکائے گا".
نقوی صاحب سے 2003 ءمیں شام کے ایک اخبار میں شناسائی ہوئے....پھر دل مل گئے اور دوستی ہوگئی.....سید بخیل نہیں ہوتا......نقوی صاحب بھی جمع نہیں تقسیم کرنے والے آدمی تھے......انہوں نے صرف محبت بانٹی....میں زندگی بھر کے لیے ان کا مقروض ٹھہرا......یہ قرض بھی عجب قرض ہے......میں ان کی گڈ بک میں تھا..... ایک بڑا پراجیکٹ آیا تو وہ جناب خالد چودھری کے معتمد خاص اور میں ان کا دست راست تھا......کتنے ہی "ضرورت مند" تھے....میں نے جسے ریفر کیا انہوں نے اسے پریفر کیا....مجھے نہیں یاد کہ انہیں کوئی کام کہا اور انہوں نے ناں کی ہو...... یہ ہے وہ قرض جو چکائے نہیں چکے گا.....ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم خالی ہاتھ ہوتے تو "ضرب تقسیم" اور جب کچھ ہاتھ لگ جائے تو "جمع تفریق" کے "فضائل" بیان کرتے ہیں.
لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ کسی کے برے دن ہیں تو اچھے نہیں آئیں گے....بندے کچھ سوچتے اور خدا کچھ اور....گردش ایام امتحان نہیں ہوتی...یہ اچھے برے کی پہچان کا ایک دورانیہ ہوتا ہے..کتنے ہی خود غرض لوگ اس دوران" چھٹ" جاتے اور زندگی کا مطلع صاف ہو جاتا ہے.
قانون قدرت ہے کہ خزاں سے بہار اور اندھیرے سے روشنی پھوٹتی ہے.....جب کرم ہوتا ہے تو زندگی چہک اور مہک اٹھتی ہے... آج سے 12سال پہلے نقوی صاحب دنیا سے روٹھے تو والدین، بچوں اور بہنوں سے مسکراہٹیں بھی روٹھ گئیں...کئی سال بعد خوشیوں کی بہار میں، جناب تنویر عباس نقوی کی والدہ محترمہ کو مبارکباد دی تو مسرت سے لبریز لہجے میں کہنے لگیں اس کا کریڈٹ نوشین کو جاتا ہے .....اللہ کریم اس کو اور زیادہ نوازے ..واقعی نقوی صاحب اور پھر والد صاحب کے بعد نوشین اپنے خاندان کے لیے"مردانہ وار" لڑی....راجہ ریاض بھی اس کے" ہم قدم" رہے.....پھر کرم ہوتا گیا اور بند دروازے کھلتے گئے...لوگوں کو کیا خبر کہ کسی دلفریب پیش منظر کا پس منظر کتنا دلخراش ہوتا ہے.....لوگ بھی کمال کرتے ہیں...بھوکے کو کھلا نہیں سکتے اور کھاتے کو دیکھ نہیں سکتے.......میں نے نوشین سے ازراہ مذاق کہا کہ اگر آج آپ کے ابا ہوتے تو نہال ہو جاتے کہ راجہ ریاض اچھا انتخاب ٹھہرا.....راجہ صاحب تو خوش ہوگئے لیکن جو جملہ نوشین نے کہا وہ بڑا ڈراؤنا ہے......تہنیت کی رخصتی پر آنکھیں برادر عزیز حافظ ظہیر کو ترستی رہیں کہ وہ ابن نقوی حاذق کی شادی پر میرے ساتھ ساتھ تھے.....ہم نے اکٹھے وہ خوشی "سیلی بریٹ" کی تھی....نقوی صاحب ہوتے تو ان کے نام "تہنیتی پیغام" لکھ کر کتنا اچھا لگتا.....جانے والے کسی نہ کسی روپ میں ہمارے ساتھ ہی ہوتے ہیں....یہ سوچ کر نوشین کو "مبروک" کے عنوان سے "یک لفظی" تہنیت نامہ لکھ بھیجا....کہہ لیجئےکہ یہ نقوی صاحب کی نذر ہی ہو گیا......تہنیت بیٹی "کہنا نہیں سہنا سیکھو "اور اپنے گھر خوش وخرم رہو...!!!
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں