بدلتی سیاسی صورت حال میں سیاسی جماعتیں اور رہنما متحرک

بدلتی سیاسی صورت حال میں سیاسی جماعتیں اور رہنما متحرک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وفاقی دارالحکومت میں بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کے تناظر میں سیاستدان غیر معمولی طور پر متحرک نظر آ رہے ہیں، اگرچہ سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے آزادی مارچ کے وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر پائے تھے جن کے دعوے کر رہے تھے اس مرتبہ انہوں نے نہ صرف دارالحکومت اسلام آباد بلکہ اس سے جڑواں شہر راولپنڈی کو بھی نشانہ پر رکھا ہوا تھا لیکن وہ دونوں شہروں پر ہی ”اثر انداز“ ہوئے بغیر واپس چلے گئے تھے وہ وفاقی حکومت سے اسمبلیوں کی تحلیل اور قبل از وقت انتخابات کے اپنے مطالبات منوائے بغیر ہی رخصت ہو گئے تھے تاہم انہوں نے وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے کے بجائے اپنی صوبائی حکومتوں سے مستعفی ہونے اور اسمبلیوں کی تحلیل کے اعلان سے فیس سیونگ تو کر لی لیکن اب اس کے بعد ہونے والی سیاسی پیش رفت کو دیکھتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ شاید پنجاب کی حد تک وہ اس کارڈ سے بھی محروم ہو گئے ہیں کیونکہ کپتان نے الٹی میٹم دیا تھا کہ اگر 20 دسمبر تک پی ڈی ایم کی حکومت نے انکا مطالبہ تسلیم نہ کیا تو وہ 21 دسمبر کو پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں گے اس کے بعد ن لیگ میں پی ٹی آئی کے سب سے بڑے حامی اور عمران خان کو اپنا قائد ماننے والے چودھری مونس الٰہی کے دلچسپ بیانات سامنے آئے انہوں نے ایک طرف تو برملا اعلان کیا کہ پنجاب اسمبلی تو کیا وہ کپتان عمران خان کے کہنے پرجان بھی قربان کر دیں گے لکین ساتھ ساتھ ہی انہوں نے دوسری طرف سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خلاف پی ٹی آئی کی مہم کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ ایک ایسے وقت میں جب وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی پی ڈی ایم کے ساتھ جانے کا حتمی فیصلہ کر چکے تھے تو جنرل باجوہ ہی تھے جنہوں نے انہیں سابق وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ انہی کی رہنمائی پر وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے کپتان عمران خان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا گویا کہ چودھری پرویز الٰہی اور چودھری مونس الٰہی نے پی ٹی آئی کے جنرل باجوہ کے خلاف الزامات کو مسترد کر دیا۔ دریں اثناء جب کپتان عمران خان پی ڈی ایم کی حکومت پر پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کے اپنے الٹی میٹم کی بنا پر بھرپور دباؤ ڈال رہے تھے تو وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے اپنے ایک انٹرویو میں اگلے سال مارچ تک اسمبلی برقرار رکھنے کا عندیہ دے کر غبارے میں سے ہوا نکال دی جس کے بعد ن لیگ اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین روابط شروع ہو گئے ہیں تاکہ کوئی اتفاق رائے سے سیاسی لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے اس کے لئے سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواڈ چودھری متحرک نظر آتے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی سے بھی ایک اہم ملاقات کی جس میں چودھری مونس الٰہی بھی شریک تھے طویل مشاورتی ملاقات کے بعد کوئی حتمی فیصلہ تو سامنے نہیں آیا تاہم فواد چودھری نے اشارہ دیا ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات میں بھی قبل از وقت انتخابات پر بات چیت ہوئی جس میں وفاقی وزیر خزنہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ وہ لندن میں قائد نوازشریف سے اس پر بات چیت کریں گے تاہم حکمران اتحاد کے رہنماؤں کے ایک اجلاس کے بعد جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ کپتان عمران خان سے کوئی بات چیت یا مذاکرات نہیں ہوں گے۔ تاہم وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان اس حوالے سے ملے جلے اشارے دے رہے ہیں ان کی جانب سے اس موضوع پر قدرے لچک دکھائی جا رہی ہے۔ در حقیقت وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے مارچ تک اسمبلی نہ توڑنے کے بیان کے بعد پی ٹی آئی کی بارگینگ پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔
دوسری جانب راولپنڈی میں کمان کی تبدیلی کے بعد ایک بدلہ بدلہ ماحول ہے راولپنڈی کے واضح اشارے مل رہے ہیں کہ پاک فوج سیاست کے کھیل سے اب کنارہ کشی ہی رکھے گی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنے فرائض منصبی سنبھالتے ہی فوج کے پیشہ وارانہ امور پر توجہ مرکوز کر لی ہے ایسا لگتا ہے کہ ان کی عسکری حکمت عملی میں کشمیر کا تنازعہ اور اس ضمن میں مشرقی سرحد کے معاملات انتہائی کلیدی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ راولپنڈی کے ذرائع کا اب یہی کہنا ہے کہ سیاستدان ملکی مسائل مل بیٹھ کر حل کریں اور سیاستدانوں کی آپس کی لڑائی میں فوج کا کوئی لینا دینا نہیں ہے پاک فوج میں اس پالیسی کے خوشگوار اثرات اسلام آباد میں بھی محسوس کئے جا رہے ہیں لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس حوالے سے کپتان اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے اپنے رویہ میں کس قدر تبدیلی لاتے ہیں کیونکہ ایک طرف تو کہا جا رہا ہے کہ کپتان عمران خان نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے ایماء پر اپنی پارٹی میں ہدایات دی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پر تنقید سے مکمل گریز کیا جائے لیکن اعظم سواتی کے معاملہ پر کپتان کے ایک ٹویٹ میں بین السطور ایسی باتیں کی گئی ہیں جس سے اندازہ نہیں ہو پا رہا کہ کپتان اس حوالے سے آئندہ کیا پالیسی اختیار کریں گے۔ قرین قیاس یہی ہے کہ وہ اب شائد سرخ لائنیں عبور کریں جبکہ وفاقی کابینہ نے جنرل فیص حمید اور جنرل اظہر عباس کی ریٹائرمنٹ کی درخواستوں کی منظوری دیدی ہے جس سے میڈیا اور سیاسی حلقوں میں قیاس آرائیوں کا ایک باب بند ہو گیا ہے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نواز شریف کی طرز پر انہیں پارٹی قیادت سے بنانے کے لئے کارروائی کا آغاز کر دیا ہے موسم سرما کا آغاز ہو گیا ہے لیکن ایندھن کی کمی کے باعث جڑواں شہروں اور اس سے ملحقہ پہاڑی علاقوں میں بسنے والوں کے لئے شدید مشکلات ہیں تاہم وفاقی وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے دورہ روس کے بعد سستا پٹرول اور ڈیزل کے حصول کی خوش خبری سنائی ہے۔ ایران بھی ایل پی جی دینے کی آمادگی کا اظہار کر چکا ہے۔ لیکن ملک کی معاشی صورتحال تشویشناک ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، ڈالر کی اونچی اڑان اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے گن چکر میں پاکستان بٹا ہوا ہے جس سے نہ صرف مہنگائی بڑھ رہی ہے بلکہ اضافہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے آئندہ آنے والے دن مزید کٹھن ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
٭٭٭

نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے

ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ عسکری قیادت، سیاسی معاملات سے الگ رہنے کے فیصلے پر قائم ہے! 

مزید :

ایڈیشن 1 -رائے -