رسولِ رحمت ، مربی و مزکّی !
دنیا جتنی بھی بدلتی چلی جائے، حالات جتنے بھی دگرگوں ہو جائیں، انسانیت کی رہنمائی کا منبع اسوہ¿ رسول ہی رہے گا، جس طرح اللہ کی کتاب غیر مبدل ہے، اسی طرح سیرت مطہرہ بھی ہر دور کے لئے حرفِ آخر ہے۔ رسول اکرمﷺ جس معاشرے میں مبعوث ہوئے، وہ ایک بگڑا ہوا فساد زدہ معاشرہ تھا۔ اللہ رب العٰلمین نے پوری انسانیت ،بالخصوص عرب کے اس معاشرے کی قسمت بدلنے کا فیصلہ کیا تو اپنے آخری نبی کی بعثت سے انہیں نوازا۔ آپ اپنے حسب ونسب کے لحاظ سے اعلیٰ ترین مقام کے حامل تھے۔ آپ کے بدترین مخالفین بھی آپ کی خاندانی وجاہت کا کبھی انکار نہ کر سکے، جس دور میں مخالفتیں اپنے زوروں پر تھیں، انہی دنوں قیصر روم کے دربار میں جب آنحضورﷺ کا خط پڑھا گیا تو اس نے سردارِ قریش ابوسفیان کو جو اس زمانے میں شام آئے ہوئے تھے، بیت المقدس بلایا اور ان سے سوال و جواب کئے، جن کی تفصیل حدیث اور تاریخ کی کتب میںمحفوظ ہے۔ قیصر روم کا پہلا سوال یہ تھا کہ محمد(ﷺ) کا خاندان اور نسب کیسا ہے۔ ابوسفیان نے جواب دیا: ”شریف و عظیم“ ۔ اس پر ہرقل نے کہا کہ سچ ہے نبی شریف گھرانے کے ہوتے ہیں، تاکہ ان کی اطاعت میں کسی کو عار نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الجہاد، روایت حضرت عبداللہ بن عباسؓ)
آنحضورﷺ بڑے خاندان میں سے ہونے کے باوجود نبوت سے قبل بھی تکبر، رعونت اور خشونت سے بالکل پاک تھے۔ کسی انسان کو کبھی حقیر نہ جانا۔ نبوت کے بعد تو آنحضورﷺکی شان خود قرآن نے یہ بیان کی ہے کہ وہ ”رحمة للعالمین ہیں“ (سورة الانبیائ، آیت 107)۔ اللہ نے آپ کو رﺅف و رحیم کے عظیم القاب بھی عطا فرمائے ہیں (سورة التوبہ، آیت:128)۔ آپ نہایت نفیس ذوق کے مالک تھے ۔ ناپاکی اور غلاظت سے ہمیشہ دامن بچا کے رکھتے۔ نظافت و پاکیزگی کو آپ نے ایمان کا حصہ قرار دیا، جو لوگ ابھی تک تربیت یافتہ نہیں تھے۔ وہ بھی آپ کی مجالس میں آ جایا کرتے تھے۔ یہ بدو لوگ بنیادی انسانی آداب سے ہی بے خبر تھے کجا یہ کہ اسلام کی اعلیٰ اقدار کی پاسداری کر سکتے۔ وہ مسِ خام کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی تربیت و تزکیہ کے لئے کسی مربی و مزکی کی ضرورت تھی، جو انہیں پاک کرتا اور کھرے سونے میں ڈھال دیتا۔
انسانیت کے سب سے بڑے مربی محمدعربیﷺ تھے۔ آپ نے جس انداز میں ان لوگوں کی تربیت کی، وہ ہر انسان کے لئے اپنے اندر بے شمار دروس پنہاں رکھتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت کتاب الوضو اور کتاب الادب دونوں میں نقل کی گئی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک بدو مسجد نبوی میں پیشاب کرنے لگا۔ اس کی اس حرکت کو دیکھ کر صحابہؓ اسے پکڑنے کے لئے دوڑے۔ آنحضورﷺبھی یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ آپ نے صحابہ ؓ کو روکا اور فرمایا: ”اسے چھوڑ دو“۔ جب وہ پیشاب کر چکا تو آنحضورنے صحابہؓ کو حکم دیا کہ جس جگہ اس نے پیشاب کیا ہے وہاں پانی بہا کر جگہ کو صاف کر دو ”فانما بعثتم میسرین و لم تبعثوا معسرین“ (یعنی تم امت مسلمہ کے لوگ، انسانیت کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی خاطر بھیجے گئے ہو، مشکلات پیدا کرنے کے لئے نہیں).... سنن ابن ماجہ میں اسی موضوع پر مزید روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس روایت کے مطابق آنحضورﷺکی موجودگی میں ایک دیہاتی مسجد نبوی میں داخل ہوا اور اس نے دعا کی: ”اے اللہ مجھے بخش دے اور محمدﷺکو بھی بخش دے اور ہمارے سوا کسی اور کی مغفرت نہ فرمانا“۔ آنحضورﷺاس سادہ لوح امتی کی بات سن کر ہنسے اور فرمایا : ”تو نے وسعتوں کو تنگی میں بدلنے کی کوشش کی ہے“۔ روایت کے مطابق یہی دیہاتی پھر مجلس سے اٹھا تو مسجد کے آخری کونے پر کھڑا کھڑا پیشاب کرنے لگا۔ جب وہ پیشاب کر چکا تو آنحضورﷺنے اسے اپنے پاس بلایا۔ شفقت و پیار سے اس کی غلطی اس پر واضح کی۔ پیشاب کرنے کے آداب اور طہارت و نظافت کی اسلامی اقدار کی تعلیم بھی دی اور دعا کے آداب بھی سکھائے۔
آپ دیکھئے! ایک ان پڑھ دیہاتی ، جس کا عمل اوپر بیان ہو چکا ہے ، کیسے عظیم انسان میں ڈھل گیا۔ خود اس کے اپنے الفاظ اس کا مظہر ہیں۔ اس نے کہا میرے ماں باپ اس عظیم شخصیت پر قربان ہوں۔ میری جاہلانہ حرکت دیکھ کر انہوں نے نہ مجھے جھڑکا نہ ہی بُرا بھلا کہا۔انہوں نے میری طرف دست شفقت بڑھایا اور مجھے نہایت موثر اندازمیں آداب زندگی سکھائے۔ایک اور روایت اسی مضمون سے متعلق ہے جو خادم رسول حضرت انس بن مالکؓنے بیان کی اور صحیح مسلم میں باب الطہارة میں نقل کی گئی ہے۔ حضرت انسؓبیان فرماتے ہیں کہ ایک بدو مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا تو صحابہ نے دیکھتے ہی اسے ملامت کی اور کہا: ”یہ کیا کر رہے ہو؟“ آنحضورﷺبھی یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے نہ روکو، اسے پیشاب کرنے دو“۔ وہ فارغ ہوا تو آپ نے اسے بلا کر پیار سے تذکیر فرمائی اور کہا کہ مسجدیں اللہ کے گھر ہیں، جو اللہ کے ذکر و عبادت اور قرآن کی تعلیم وقرا¿ت کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ مسجدوں میں پیشاب کرنا اور گندگی پھیلانا درست نہیں۔
آنحضورﷺنے اپنے اس طرزِ عمل سے اپنی وسعت قلبی کا بھی اظہار کیا، لیکن ساتھ ہی حکمت نبوی بھی اس سے نمایاں ہوئی۔ شعبہ طب کے لوگ کہتے ہیں کہ پیشاب کرتے ہوئے کسی شخص کو اچانک پیشاب روکنے کے لئے کہا جائے تو اس سے بہت سی طبی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ کسی عقل مند آدمی کا یہ قول بھی مشہور ہے کہ پیشاب شدت سے آیا ہو اور کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہو تو اسے اتنی دیر بھی نہیں کرنی چاہیے کہ وہ گھوڑے سے نیچے اترے۔ یہ قول دراصل ایک ضرب المثل ہے ،جس میں اس بات پر زور دینا مقصود ہے کہ پیشاب کی شدت کے وقت اسے روکے رکھنا مناسب نہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ انسان گھوڑے کی زین پر بیٹھا بیٹھا پیشاب کر دے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اس انتظار میں نہ بیٹھا رہے کہ ابھی تھوڑی دیر میں منزل پر پہنچ جاﺅں گا تو گھوڑے سے اتر کر پیشاب کروں گا۔
آنحضورﷺنے اپنے معاشرے کو اس انداز میں منظم کیا کہ اس میں جسمانی و روحانی پاکیزگی کا بھی مکمل اہتمام ہونے لگا اور ماحولیاتی نفاست بھی اس کی معاشرت کا حصہ بن گئی۔ ماحولیاتی آلودگی اور غلاظت و گندگی حفظانِ صحت کی ہر کاوش کو ناکام بنا دیتی ہے۔ ہم اپنے معاشرے کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آنحضورﷺکی ان تعلیمات کو ہم نے بالکل پس پشت ڈال دیا ہے۔ ان تعلیمات کے مطابق جسم و جان، قلب و روح، لسان و ذہن اور گھروں ، بازاروں، گلیوں کو صاف رکھنا ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح اسوہ¿ رسول سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ دعوت وتذکیر میں سختی و درشتی اور غصہ و جھنجلاہٹ نہیں، بلکہ نرمی و تحمل، ہمدردی و خیر خواہی مو¿ثر ذرائع ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معاشرتی آداب اور حفظانِ صحت کے اصول و ضوابط بھی دینی تعلیمات کا حصہ ہیں۔ ان کا مناسب اندازمیں اہتمام اور چرچا کرنا دین ہی کی خدمت ہے۔
آغاز اسلام میں جب تک لوگوں کی تربیت نہیں ہوئی تھی، لوگوں میں بہت سے عیوب پائے جاتے تھے، لیکن آپ نے ہمیشہ پیار و محبت سے ان کی بری عادات کو بدلا۔ اچھائی اور خوبی کے سانچوں میں ڈھالا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ معاشرہ بالکل بدل گیا۔ سیرت اور حدیث کی کتابوں میں ایک اور واقعہ کا تذکرہ ملتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کی مجلس میں ایک نوجوان نے ایک نہایت نازیبا بات کہی۔ آنحضورﷺ کے سامنے اس نے کہا کہ وہ زنا نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ قبیح بات سن کر صحابہؓ بہت غصے میں آئے، لیکن آنحضورﷺ نے غصہ کرنے کے بجائے نہایت حکمت کے ساتھ اس نوجوان کی سوچ کا دھارا موڑ دیا۔
آپ نے اسے اپنے قریب بلایا اور پوچھا کیا تمہاری ماں اور بہن ہے؟“.... اس نے کہا جی ہاں۔ آپ نے پوچھا اگر کوئی دوسرا شخص تمہاری ماں یا بہن، بیٹی ، پھوپھی اور خالہ کے ساتھ یہ عمل کرے تو کیا تم اسے پسند کرو گے؟ اس نے کہا ہر گز نہیں۔ آپ نے نرمی سے اسے سمجھایا کہ جس طرح تم اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ کسی کو یہ عمل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اسی طرح دوسرے لوگ بھی اپنی خواتین کے ساتھ بدکاری برداشت نہیں کر سکتے۔ آپ کی اس حکیمانہ تذکیر کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ پکار اٹھا :”یا رسول اللہ! میری سمجھ میں بات آ گئی ہے اور اب میں یہ قبیح حرکت نہیں کروں گا“۔ (بحوالہ مسند احمد جلد پنجم، ص256تا257، روایت حضرت ابوامامہؓ) آنحضورﷺکی یہ گفتگو اپنی جگہ نرمی اور حلم پر مبنی ہے، مگر اس کے اندر ایک تادیب و فہمائش بھی موجود ہے۔ مخاطب نوجوان یقینا ایک بار اندر سے ہل گیا ہو گا۔ ایک نہایت قابل نفرت بات کرنے پر آنحضورﷺنے اسے جس طرح متوجہ و متنبہ کیا ،وہ خاصا مو¿ثر اور آنکھیں کھول دینے والا انداز ہے۔ مذکورہ بالا روایت کے مطابق نبی رحمت نے اس نوجوان کے لئے دعا فرمائی....”اللّہم اغفر ذنبہ و طہر قلبہ و حصن فرجہ“.... (اے اللہ اس نوجوان کی مغفرت فرما دے، اس کے دل کو پاک کر دے اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت فرما )۔