تبدیلی یا اتحاد و یکجہتی !
وطن عزیز پاکستان ان دنوں جن بحرانوں اور مسائل کا شکار ہے ان سے نمٹنا ازخود ایک مسئلے کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ بعض مسائل تو چیلنجز کی طرح تقاضا کرتے ہیں کہ پوری قوم اکٹھی ہوکر ان کا مقابلہ کرے۔ حالیہ دہشتگردی کی لہر نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ معصوم بچے تک اِن ظالموں کی کارروائیوں سے محفوظ نہیں رہے۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول کے بچوں کو جس بے دردی سے شہید کیا گیا اس پر حکومت اور افواج پاکستان نے فیصلہ کن مرحلے کے آغاز کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا بلکہ تمام سیاسی و مذہبی قائدین کو فیصلہ سازی میں شامل کیا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اس حوالے سے حکومت کے ہر قدم پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے بھرپور کاررائی کا عندیہ بھی دیا۔
پنجاب میں خاص طور پر ایک مہم کے طور پر آگاہی کو عام کیا جارہا ہے۔ پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کی استعداد کاربڑھانا اور پنجاب میں کاؤنٹر ٹیررازم کے لیے کارپورلز کی تیاری ایک اہم فیصلہ ہے جس کے دوررس نتائج برآمد ہونگے۔ گذشتہ روز ایلیٹ ٹریننگ سنٹر بیدیاں روڈ لاہور میں وزیراعظم پاکستان‘ وفاقی وزراء‘ وزیراعلیٰ پنجاب‘ آرمی چیف‘ آئی جی پولیس اور ملک بھر کے صحافیوں اور دانشوروں نے اکٹھے ہوکر یکجہتی اور دہشتگردی کے خلاف عزم مصمم کا اظہار کیا۔ ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعے عوام کا مورال بلند کرنے اور دہشگردوں کو کچلنے کے لیے جرأت اور ولولہ پیدا کیا جارہا ہے۔ خادم اعلیٰ پنجاب کی زیرک قیادت میں پنجاب کے تمام محکمے اور شعبے اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ سکولوں کی سیکورٹی کا معاملہ ہو‘ مذہبی مقدس مقامات کے تحفظ کی بات ہو یا عام سڑکوں چوراہوں اور عمارات کا تحفظ ہو ہر جگہ حکومتی رِٹ کو بحال کیاجارہا ہے۔ اس سلسلے میں علماء و مشائخ کا تعاون بھی طلب کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت تمام صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے مشترکہ لائحہ عمل لارہی ہے۔ ایسے میں خوش آئند بات یہ ہے کہ اپوزیشن نے مجموعی طور پر حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے۔ تمام علاقائی و قومی جماعتوں نے اس ایشو پر حکومت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔ عمران خان صاحب نے بھی اپنی ضدی سیاست کا طرز تو بدلا لیکن تھوڑی دیر کے لیے۔ آل پارٹیز کانفرنسز میں حکومتی مؤقف کی حمایت کے بعد باہر نکل کر پھر اپنا موقف بدل لینے سے ان کی کریڈیبلٹی متاثر ہوئی۔ ایک طرف فوجی عدالتوں کی حمایت اور دوسری طرف انصافی وکلاء کا اس کے خلاف پیش ہونا ان کی دورنگی سیاست کا شاخسانہ ہے۔
حکومت دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے کمر کس رہی تھی‘ پورا ملک اس لعنت سے چھٹکارا پانے کی فکر اور اس نحوست کے غم میں گرفتار تھا کہ کپتان صاحب نے نئی شادی رچا کر توجہ کا زاویہ ہی بدل دیا۔ وہی کپتان جو نئے پاکستان کے لیے نوجوان نسل کے مستقبل داؤ پر لگانے پر تُلے ہوئے تھے‘ صبح و شام یہی آوازیں آتی تھیں کہ ہم ہر صورت اس پاکستان کو بدل ڈالیں گے۔ مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ موصوف نے اسی پُرانے پاکستان میں ہی میاں نوازشریف کی حکومت میں ہی تمام تر قسمیں اور وعدے توڑ کر شادی کرلی۔ ہم نے تو ان کی خوشی کو خوشی سمجھا اور مسلم لیگی قیادت نے خان صاحب کو مبارکباد بھی دی۔ البتہ پی ٹی آئی کی اپنی کارکن خواتین کی اکثریت کو اس فیصلے سے خاصی مایوسی ہوئی اور بعض جگہ ردِعمل بھی سامنے آیا۔ کپتان خان کی شادی اگرچہ ان کا ذاتی معاملہ ہے لیکن یہ بات بھی غلط نہیں کہ ان کی شادی ملک کے مجموعی سیاسی ماحول پر اثرانداز ہوئی ہے۔ خان صاحب کی طبیعت اور ان کی سیاست میں مثبت تبدیلیاں رُونما ہورہی ہیں۔ جس کی دلیل ان کی طرف سے یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی ہے۔ سول نافرمانی کے فرمان کو واپس لے کر انہوں نے ایک مثبت اشارہ دیا ہے۔ حکومت مستقبل میں بھی کپتان کی طرف سے اسی طرح کے اقدامات کی توقع رکھتی ہے۔ کیونکہ وقت کا تقاضا ہے کہ اپنے سیاسی و نظری اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک و قوم کی خدمت میں اپنا حصہ ڈالا جائے۔ اس وقت ہمارے پیش نظر کتنے بھی مشکل حالات ہیں تاہم پوری تندہی سے عوامی خدمت کا سفر جاری ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں حیران کن کمی کے اثرات عوام تک پہنچانے کے لیے ایک بھرپور نظام وضع کیاجارہا ہے۔
ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ میں لانے کے لیے ضلعی حکومتیں و ادارے نگرانی کررہی ہیں۔ بعض جگہ انتظامی نااہلی کے باعث کچھ مشکلات بھی سامنے آرہی ہیں لیکن ایسے تمام عناصر کو سامنے لاکر کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا جو کسی بھی سطح پر عوام کو اذیت پہنچانے کا باعث بن رہے ہوں۔ پنجاب میں ترقی کی رفتار کو مزید تیز کیاجارہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی ذاتی دلچسپی سے توانائی کے متعدد منصوبوں پر کام تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جس کے بعد صنعتی شعبہ بڑی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرے گا۔ حکومتی اقدامات کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے۔ میاں نوازشریف اور میاں محمد شہبازشریف کی مدبرانہ قیادت بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنے اور غیر ملکی کاروباری اداروں کو پاکستان کی منافع بخش منڈی کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ٹھہری ہیں۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جارہے ہیں۔ تعلیم اور صحت کے میدان میں انقلابی اقدامات کے ذریعے عوام کو معیاری سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ اگر موجودہ حکومت کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور بے جا مداخلت کے ذریعے ٹانگیں کھینچنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان دیگر ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل ہوگا اور ہمارا معاشرہ بھی امن کا گہوارہ بنے گا۔ مگر اس منزل کو پانے کے لیے شرط یہ ہے کہ اتحاد و یکجہتی کو اپنی قوت بنایا جائے۔ میں نہ مانوں کی ضد سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔